سحر کو شب نہ مانیں گے غزل نمبر 54 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
سحر کو شب نہ مانیں گے
جھوٹ ہے سب نہ مانیں گے

اپنا ہی نقصان کریں گے
باتیں جب نہ مانیں گے

آنکھوں سے اقرار ہے لیکن
زیرِ لب نہ مانیں گے

تم چاہو تو جان بھی حاضر
تم سے کب نہ مانیں گے

ناراض ہیں پر ناراضی کا
ہو جو بھی سبب نہ مانیں گے

نرم طبیعت رکھنے والے
غیض و غضب نہ مانیں گے

سمجھانے میں دیر ہوئی وہ
شاید اب نہ مانیں گے

عادت ہے محبوب کی یہ بد
ہو غصہ تب نہ مانیں گے

اپنی خواہش منوالیں گے
پر میری طلب نہ مانیں گے

جو سوزِ غم کے عادی ہیں
وہ سازِ طرب نہ مانیں گے

دل رکھتے ہیں دل کے قاتل
یہ بات عجب نہ مانیں گے

کچھ ادب تعظیم کی باتیں ہیں
جو بے ادب نہ مانیں گے

کفار کی یہ بد بختی ہے
سچا مذہب نہ مانیں گے

یہ باطل لوگ قیامت تک
حق کا مطلب نہ مانیں گے


شارؔق وہ نار میں جائیں گے
جو حکمِ رب نہ مانیں گے
 

الف عین

لائبریرین
ادھر اسی 'بحر' میں غزلیں کہہ رہے ہو جس کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ کہیں چار بار کہیں ساڑھے تین بار فعلن آ رہا ہے تقطیع میں. یا تو چار بار ہی ہو یا سارھے تین( یعنی آخری بار فع/فعل)۔ مزید یہ کہ 'نہ' محض 'ن' یعنی یک حرفی باندھنا قابل ترجیح ہے۔ بطور نا، دو حرفی بر وزن فع نہیں
 
Top