عمران شناور
محفلین
سحر کی سرخیاں عالم میں پھیلانے کی جلدی تھی
ہر اک مجرم کو مقتل میں سزا پانے کی جلدی تھی
مسافت کا تقاضا تھا رفاقت دور تک رہتی
نہ جانے کیوںتمہی کو گھر پلٹ جانے کی جلدی تھی
گماںجن وادیوں پر جنتِ ارضی کا ہوتا ہو
پہاڑوں کو انہی پر آگ برسانے کی جلدی تھی
در و دیوار بھی مانوس تھے تاریک راتوں سے
چراغوں سے ہواؤں کو بھی ٹکرانے کی جلدی تھی
مصور ڈھونڈتے پھرتے تھے خود جن ماہ پاروں کو
انہی کو ایک دن رنگوں میںڈھل جانے کی جلدی تھی
کوئی تیار تھا کر دے ہمیں محرومِ گویائی
کسی کو پاؤں میں زنجیر پہنانے کی جلدی تھی
مسافر چاہتے تھے جس سے کترا کر گزر جانا
زمانے کو وہی تاریخ دہرانے کی جلدی تھی
(سرور ارمان)
ہر اک مجرم کو مقتل میں سزا پانے کی جلدی تھی
مسافت کا تقاضا تھا رفاقت دور تک رہتی
نہ جانے کیوںتمہی کو گھر پلٹ جانے کی جلدی تھی
گماںجن وادیوں پر جنتِ ارضی کا ہوتا ہو
پہاڑوں کو انہی پر آگ برسانے کی جلدی تھی
در و دیوار بھی مانوس تھے تاریک راتوں سے
چراغوں سے ہواؤں کو بھی ٹکرانے کی جلدی تھی
مصور ڈھونڈتے پھرتے تھے خود جن ماہ پاروں کو
انہی کو ایک دن رنگوں میںڈھل جانے کی جلدی تھی
کوئی تیار تھا کر دے ہمیں محرومِ گویائی
کسی کو پاؤں میں زنجیر پہنانے کی جلدی تھی
مسافر چاہتے تھے جس سے کترا کر گزر جانا
زمانے کو وہی تاریخ دہرانے کی جلدی تھی
(سرور ارمان)