میر سحر گہہ عید میں دور سبو تھا

سحرگہہ عید میں دورِ سبو تھا
پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا

غلط تھا آپ سے غافل گزرنا
نہ سمجھے ہم کہ اس قالب میں تو تھا

چمن کی وضع نے ہم کو کیا داغ
کہ ہر غنچہ دل پرآرزو تھا

گل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا
جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا

کروگے یاد باتیں تو کہو گے
کہ کوئی رفتۂ بسیار گو تھا

جہاں پُر ہے فسانے سے ہمارے
دماغِ عشق ہم کو بھی کبھو تھا

مگر دیوانہ تھا گل بھی کِسو کا
کہ پیراہن میں سو جاگہ رفو تھا

کہیں کیا بال تیرے کھل گئے تھے
کہ جھونکا باؤ کا کچھ مشک بو تھا

نہ دیکھا میر آوارہ کو لیکن
غبار اک ناتواں سا کوبکو تھا

میر تقی میر​
 
آخری تدوین:
Top