امتیازاحمد جام
محفلین
قیام پاکستان سے لیکر ابتک ہمارے وطن عزیز پر لاتعداد مصیبتیں آئی ہیں اور ہماری قوم نے ہر مصیبت کا سامنا انتہائی بہادری سے کیا ہے. وہ چاہے قیام پاکستان کے وقت لٹے پھٹے و مصیبت زدہ مہاجرین کی مہمان نوازی ہو یا پھر مختلف ادوار میں سیلاب اور قحط سے پیدا ہونیوالے مصائب. چاہے 1940ء, 1965ء, یا 1971ء کی جنگ ہو یا پھر 2005 کا زلزلہ ہو. چاہے آپریشن ضرب عضب کے نتیجہ میں متاثرین کی عارضی بحالی ہو یا قرض اتارو ملک سنوارو, شوکت خانم اور ڈیم فنڈ ہو پاکستانیوں نے حتی المقدور اپنے دل کھول کر مالی و ہر قسم کی امداد کی ہے. ہر طبقہ کے افراد بشمول خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے. بین الاقوامی طور پر بھی پاکستانیوں کی فیاضی و سخاوت کو بطور مثال بیان کیا جاتا ہے اور اگر یوں کہا جائے کہ فیاضی و سخاوت میں پاکستانی دنیا کی نمبر ون قوم ہیں تو بے جا نہ ہوگا.
یہ تو ہے تصویر کا ایک رُخ اور دوسرا رُخ تھوڑا سا الگ اور بھیانک ہے. جہاں ہم سخاوت و فیاضی میں میں کوئی ثانی نہیں رکھتے وہاں لالچ, حرص اور بے ایمانی میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے. ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی ہم اپنے حصے کی ضرورت پوری ہونے تک محدود نہیں رہتے بلکہ دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کو اپنی بہادری اور حق سمجھتے ہیں. اگر کہیں کوئی مخیّر ضرورتمندوں کی حاجت پوری کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو تو ہماری اکثریت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کی جیب سے سارا مال نکلوا کر ہضم کرلیں. آپ نے کئی جگہوں پر خیرات بٹنے کی جگہ پہ چھینا جھپٹی دیکھی ہوگی. کہیں بھی کوئی درد دل رکھنے والا فرد کھانا و دوسری اشیائے ضروریہ تقسیم کرتا نظر آئے تو اکثریت اپنے خاندان کے پورے افراد کو لیکر پہنچ جائیں گے اور اس چکر میں کہ کہیں یہ چیز کسی اور ضرورت مند کے پاس پہنچ جائے ایسی چھینا جھپٹی ہو گی کہ خدا کی پناہ.
حکومت پاکستان نے بھی مختلف ادوار میں غریب غرباء کی ضروریات زندگی پوری کرنے کےلیے مختلف سکیمیں متعارف کرائیں اور ان میں سب سے بہتر سکیم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام تھی. لیکن لالچی اور بے حس افراد نے ان سکیموں میں بھی کرپشن کرنے اور ذاتی مفادات اٹھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی. متعدد اعلیٰ افسران نے اپنی بیگمات, ملازمین اور رشتہ داروں کے نام پہ غریبوں کا حق کھایا. ان بے غیرت اور بےحس افراد نے اپنی ذلالت کے تمام ریکارڈ توڑے.
ابھی حال ہی میں میرے ایک دوست نے کرونا وائرس کی وجہ سے ہونیوالے لاک ڈاؤن میں سفید پوش طبقہ کے ضرورت مند افراد کی مدد کرنا چاہی. اب چونکہ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ان ضرورتمند افراد کو کیسے تلاش کیا جائے اسی لیے اس نے غلطی سے اپنا نمبر فیس بک پہ دے دیا. پھر کیا تھا ایک ہی خاندان کے مختلف افراد اور ایک ہی بستی کے تمام گھروں نے اپنے گھر کے ہر فرد کو لیکر راشن لینے پہنچ گئے. مجبوراً میرے اس دوست کو اپنا نمبر تک بند کرنا پڑا. ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں ان جیسے لالچی اور بے حس لوگوں کے رویہ کی وجہ سے اکثر ضرورتمندوں تک امداد نہیں پہنچ پاتی.
اس موضوع پہ لکھا تو بہت کچھ جا سکتا ہے. لیکن مختصراً یہ کہ ان رویّہ جات اور لالچی اور حریص اور بے غیرت افراد کی وجہ سے کئی ضرورتمندوں اور خاص طور پہ سفید پوش طبقہ کے غریب افراد تک مدد باہم پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ میں درد دل رکھنے والے افراد اور سوج بوجھ رکھنے والے افراد کو آگے آکے ان جیسے پروفیشنلزکی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے اور اصل حقداروں کا تعین کرکے مخیّر حضرات کے ذریعے ان کی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے.
اللہ ہم سب کو لالچ, حرص اور خودغرضی سے دور رکھے اور دوسروں کا احساس کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین!
یہ تو ہے تصویر کا ایک رُخ اور دوسرا رُخ تھوڑا سا الگ اور بھیانک ہے. جہاں ہم سخاوت و فیاضی میں میں کوئی ثانی نہیں رکھتے وہاں لالچ, حرص اور بے ایمانی میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے. ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی ہم اپنے حصے کی ضرورت پوری ہونے تک محدود نہیں رہتے بلکہ دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کو اپنی بہادری اور حق سمجھتے ہیں. اگر کہیں کوئی مخیّر ضرورتمندوں کی حاجت پوری کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو تو ہماری اکثریت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کی جیب سے سارا مال نکلوا کر ہضم کرلیں. آپ نے کئی جگہوں پر خیرات بٹنے کی جگہ پہ چھینا جھپٹی دیکھی ہوگی. کہیں بھی کوئی درد دل رکھنے والا فرد کھانا و دوسری اشیائے ضروریہ تقسیم کرتا نظر آئے تو اکثریت اپنے خاندان کے پورے افراد کو لیکر پہنچ جائیں گے اور اس چکر میں کہ کہیں یہ چیز کسی اور ضرورت مند کے پاس پہنچ جائے ایسی چھینا جھپٹی ہو گی کہ خدا کی پناہ.
حکومت پاکستان نے بھی مختلف ادوار میں غریب غرباء کی ضروریات زندگی پوری کرنے کےلیے مختلف سکیمیں متعارف کرائیں اور ان میں سب سے بہتر سکیم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام تھی. لیکن لالچی اور بے حس افراد نے ان سکیموں میں بھی کرپشن کرنے اور ذاتی مفادات اٹھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی. متعدد اعلیٰ افسران نے اپنی بیگمات, ملازمین اور رشتہ داروں کے نام پہ غریبوں کا حق کھایا. ان بے غیرت اور بےحس افراد نے اپنی ذلالت کے تمام ریکارڈ توڑے.
ابھی حال ہی میں میرے ایک دوست نے کرونا وائرس کی وجہ سے ہونیوالے لاک ڈاؤن میں سفید پوش طبقہ کے ضرورت مند افراد کی مدد کرنا چاہی. اب چونکہ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ان ضرورتمند افراد کو کیسے تلاش کیا جائے اسی لیے اس نے غلطی سے اپنا نمبر فیس بک پہ دے دیا. پھر کیا تھا ایک ہی خاندان کے مختلف افراد اور ایک ہی بستی کے تمام گھروں نے اپنے گھر کے ہر فرد کو لیکر راشن لینے پہنچ گئے. مجبوراً میرے اس دوست کو اپنا نمبر تک بند کرنا پڑا. ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں ان جیسے لالچی اور بے حس لوگوں کے رویہ کی وجہ سے اکثر ضرورتمندوں تک امداد نہیں پہنچ پاتی.
اس موضوع پہ لکھا تو بہت کچھ جا سکتا ہے. لیکن مختصراً یہ کہ ان رویّہ جات اور لالچی اور حریص اور بے غیرت افراد کی وجہ سے کئی ضرورتمندوں اور خاص طور پہ سفید پوش طبقہ کے غریب افراد تک مدد باہم پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ میں درد دل رکھنے والے افراد اور سوج بوجھ رکھنے والے افراد کو آگے آکے ان جیسے پروفیشنلزکی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے اور اصل حقداروں کا تعین کرکے مخیّر حضرات کے ذریعے ان کی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے.
اللہ ہم سب کو لالچ, حرص اور خودغرضی سے دور رکھے اور دوسروں کا احساس کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین!