فرخ منظور
لائبریرین
سخت افسردہ ہو گئے ہیں ہم
اے غمِ دوست ایک نگاہِ کرم
کون اٹھ کر گیا ہے محفل سے
بزم کی بزم ہو گئی برہم
عشق نے یوں کہا افسانۂ درد
حسن کی آنکھ بھی ہوئی پرنم
نہ جھکے گا یہ سر کسی در پر
مجھ کو تیرے ہی آستاں کی قسم
اپنی ناکام آرزوؤں کو
کس تمنّا سے دیکھتے ہیں ہم
کیسی کیسی خزاں سے گزرے ہیں
خوب گزرا بہار کا موسم
زندگی اور یہ غمِ پیہم!
زندگی ہے کہ زیست کا ماتم
کل ترستا تھا جس بہار کو دل
آج روئے ہیں اس بہار پہ ہم
(صوفی تبسّم)