سخت گیرقدامت پسند یہودیوں کے لیے سیکس گائیڈ

120829092602_feet_bed_304x171_bbc_nocredit.jpg

’قدامت پسند یہودیوں کے لیے سیکس کے متعلق معلومات فراہم کرنے والی گائید کی بہت پہلے سے ضرورت تھی‘

سخت گیر قدامت پسند یہودیوں کے لیے سیکس ایک حساس موضوع ہے تاہم اسی مذہب سے تعلق رکھنے والے یروشلم کے ایک ڈاکٹر نے اس طبقے کے لیے ایک سیکس گائیڈ تیار کی ہے۔
وسطی يروشلم میں پہلے ڈاکٹر ڈیوڈ ریبنر کے دفتر کے راستے میں ایک سیکس شاپ ہوا کرتی تھی۔

اس دکان کا سائن بورڈ اب بھی موجود ہے جس پر سرخ جلی خط میں ’سیکس شاپ، سیکس، لو‘ لکھا ہوا ہے جو بمشکل نظر آتا ہے کیونکہ اسے كھرچ دیا گیا ہے۔
یہ دکان اب بند ہو چکی ہے اور پورے یروشلم میں اب سیکس کی ایک ہی دکان بچی ہے جوکہ مقدس شہر کے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں۔
لیکن ڈاکٹر ریبنر کے دفتر کی بات جدا ہے۔ یہاں ریکس پر روغن دار، محرک اور مالش والے تیل کے ساتھ ساتھ نادر قسم کی کتابیں سجی ہوئی ہیں۔ ان کتابوں میں ’دی جوائے آف سیکس‘ اور ’دی گائیڈ ٹو گٹ اٹ آن‘ بھی ہیں جو یہودیوں کی بعض مذہبی کتابوں کے ساتھ رکھی ہوئی ہیں۔
میں نے ریبنر سے کہا کہ میں نے کتابوں کی ایسی الماری پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’شاید ایسی کوئی ہے بھی نہیں‘۔
ریبنر کی پیدائش امریکی شہر نیویارک میں ہوئی تھی۔ انہوں نے مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ سوشل ورک میں پی ایچ ڈی کی اور اس کے بعد وہ اسرائیل منتقل ہو گئے۔
یہاں وہ گزشتہ 30 سال سے قدامت پسند یہودی مریضوں کو طبی صلاح و مشورے فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے تل ابیب بار الان یونیورسٹی میں جنسی طب پر ایک تربیتی پروگرام بھی شروع کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ قدامت پسند یہودیوں کے لیے سیکس کے متعلق معلومات فراہم کرنے والی گائید کی بہت پہلے سے ضرورت تھی۔
ریبنر بتاتے ہیں کہ ’قدامت پسند یہودی لڑکے اور لڑکیاں الگ الگ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور شادی کے بعد پہلی رات میں جب وہ ملتے ہیں، تب تک ان میں باہمی رابطہ بھی نہیں ہوا ہوتا ہے۔‘
انہیں اپنی بیوی یا شوہر یا کچھ قریبی خاندانی ارکان کے ساتھ ہی ہاتھ ملانے جیسے جسمانی رابطے کی اجازت ہوتی ہے۔ فلم دیکھنے اور انٹرنیٹ کے استعمال پر عام طور پر پابندی ہے۔
ریبنر بتاتے ہیں ’ہم چاہتے تھے کہ ایک ایسی جگہ ہو جہاں لوگ یہ کہیں کہ میں کچھ نہیں جانتا ہوں اور میں کچھ جاننا چاہتا ہوں۔‘

ڈاکٹر ریبنر کی الماری میں مقدس کتابوں کے ساتھ سیکس کی کتابیں بھی ہیں
ریبنر نے قدامت پسند جینی روزنفیلڈ کے ساتھ مل کر نئے شادی شدہ جوڑوں کے کے لیے جسمانی قرب کے تعلق سے ایک گائیڈ لکھی ہے۔ اس میں انہوں نے چھوٹی سے چھوٹی باتوں کا ذکر کیا ہے جیسے عورت اور مرد کے جسم کی ساخت میں کیا فرق ہوتا ہے۔
ریبنر بتاتے ہیں کہ ’یہودی مذہب میں سیکس کو مثبت قرار دیا گیا ہے لیکن اس پر کھل کر بات کرنا ایک طرح سے ممنوع ہے۔ سیکس صرف شادی کے تناظر میں مناسب ہے۔ اس کے باہر اس پر بات نہیں ہوتی۔‘
ایسے میں یہ کتاب ایک نامعلوم دنیا کی سیر ہے۔ کتاب کو دیکھیں تو اس میں کوئی تصویر نہیں ہے۔ البتہ کتاب کی پشت پر ایک سيل بند لفافہ لگا ہے۔ اس پر لکھا ہے کہ اس کے اندر کچھ شہوانی، شہوت انگیز تصاویر ہیں، اگر آپ ان کو نہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ لفافے کو نکال کر پھینک دیں۔
ایک لفافے کو کھول کر ریبنر مجھے دکھاتے ہیں کہ اس میں ابتدائی جنسی فعل کو ظاہر کرنے والے خاکے ہیں۔
ریبنر کہتے ہیں کہ ’اگر آپ نے کبھی فلم نہیں دیکھی ہے یا اس بابت کوئی کتاب نہیں پڑھی ہے تو آپ کیسے جانیں کہ کیا کرنا ہے۔‘
ان خاکوں میں چہرہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ وسیع پیمانے پر قابل قبول ہو اور کسی کے جذبات کو کم سے کم مجروح کرے۔ اس کے لیے انھوں نے دوسرے قسم کے سیکس گائید کا مطالعہ بھی کیا۔
یروشلم میں جنسی بیماری کے ماہر ڈاکٹر ناشان ڈیوڈ كارمی اس کتاب کی کاپیاں اپنے کلینک میں رکھنے لگے ہیں۔ انہوں نے اپنے کچھ مریضوں کو اسے پڑھنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے ’وہ لوگ جو مذہبی ماحول میں بڑے ہوئے ہیں اور جنہیں جنسی تعلیم نہیں ملی ہے، ان کے لیے یہ کتاب بہت مفید ہے۔‘
سیکس یہودی فرقوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا مقصود ہے۔
اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کھلے انداز میں یہودیوں سے جنسیت کے متعلق بات کرتی ہے۔ سیکس قدامت پرست اور سخت گیر قدامت پرست دونوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا مقصود ہے۔
لیکن زیادہ تر قدامت پسندوں کے بچے خاص مذہبی سکولوں میں پڑھتے ہیں، جہاں انہیں جنسی تعلیم برائے نام ہی دی جاتی ہے یا پھر سرے سے دی ہی نہیں جاتی ہے۔
ریبنر کی یہ کتاب گزشتہ سال انگریزی میں شائع ہوئی تھی۔ اب یہ کتاب عبرانی زبان میں بھی منظر عام پر آنے والی ہے۔ اس کے بعد یہ اسرائیلی لوگوں کے لیے مزید پہنچ میں ہوگی۔
اسرائیل کے انتہائی قدامت پسند معاشرے کے لیے کئی کتابیں تصنیف کرنے والے سماجیات کے ماہر میناخم فرائڈ مین کہتے ہیں کہ ’جب یہ کتاب عبرانی زبان میں اگلے چند ہفتے میں آئے گی تو یہ طوفان کھڑا کر سکتی ہے۔‘
بہر حال وہ اس بات سے متفق ہیں کہ اس طرح کی کتاب کی سخت ضرورت ہے اور انہیں امید ہے کہ پیچھے کی کھڑکی سے یہ کتاب خوب بكےگی۔

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 
Top