سخندان فارس صفحہ 58

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 58

متروک رہی چالیس پچاس برس سے پھر قصائد میں استعمال کرنے لگے ہیں۔ برخلاف اس کے اگر جو حرف شرط ہے۔ ہمیشہ نظم و نثر دونو میں آتا ہے۔ اور گر فقط نظم میں آتا ہے۔ از بھی نظم و نثر دونو میں آتا ہے۔ ز فقط نظم میں ہو جاتا ہے۔ ان الفاظ کو دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے۔ کہ الف متحرک کے مزاج میں دونو قوتیں ہیں۔ گرنا بھی اور زیادہ ہونا بھی۔ فہرست مندرجہ صفحہ 55 میں مخارج حروف کو دیکھو۔ معلوم ہو گا کہ اَ اور ہَ قریب المخرج ہیں اسی واسطے فارسی کے اکثر لفظوں میں اَ ہَ سے بدل جاتا ہے۔ مثلا افیون۔ ہپیون وغیرہ اکثر الفاظ ہیں کہ اہل زبان میں دونو طرح مستعمل ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان دونو حرفوں کے مزاج میں مبادلہ کا میلان ہے۔ اس صورت میں اگر کوئی لفظ ایسا ہو۔ کہ اس ک الف متحرک ہ سے بدلیں اور لفظ مذکور سنسکرت میں جا ملے۔ تو صاف سمجھ لو۔ کہ اصل میں اس چیز کا ایک ہی نام تھا۔ دوسرے ملک میں جا کر جس طرح اہل ملک کے رنگ و روپ۔ ڈیل ڈول۔ وضع لباس بدلے۔ اسی طرح اُن کے لب و دہان کی نئی جنبش نے لفظوں پر اثر کیا۔اَ کا مزاج قریب مخرج کے سبب سے ہَ کی طرف مائل تھا۔ اس لئے ہَ بن گیا۔ لفظ کی صورت بدل گئی۔ بے خبر سمجھتے ہیں کہ اس شے کو فارسی میں یہ کہتے ہیں۔ اور سنسکرت میں وہ۔ حقیقت میں دونو ایک ہیں۔

اب میں الف کے گرنے کی مثالیں دیتا ہوں​

یک۔ فارسی میں عدو اَ ہے۔ وہی سنسکرت میں ایک ۔۔۔۔۔ ہے۔
ابرو۔ فارسی میں بَھؤں کو کہتے ہیں۔ سنسکرت میں ۔۔۔۔۔ بھرو ہے۔
سَتَہ۔ بغتحتیں۔ اور کبھی بہ تشدید۔ فارسی میں باسی چیز کو کہتے ہیں۔ سنسکرت میں اَسَتؤَ ۔۔۔۔۔ کہتے ہیں۔

اب دیکھو اَ کیونکر ہَ سے بدلتا ہے۔​

اے۔ فارسی میں حرف ندا ہے۔ سنسکرت میں ہے ۔۔۔۔ کہکر پُکارتے ہیں اور
 
Top