فرخ منظور
لائبریرین
سخنِ عشق نہ گوشِ دلِ بے تاب میں ڈال
مت یہ آتش کدہ اس قطرہء سیماب میں ڈال
گھر کا گھر بیچ، ٹکے خرچ مئے ناب میں ڈال
زاہد!اسبابِ جہاں کچھ نہیں، دے آب میں ڈال
ابھی جھپکی ہے ٹُک، اے شورِ قیامت یہ پلک
صبح کا وقت ہے ظالم، نہ خلل خواب میں ڈال
کرکے معیوبِ طمع دل کہ نہ سن حرفِ درشت
یہ بری چٹ ہے، نہ اس گوہرِ نایاب میں ڈال
شمع ساں روئیے کیوں کر نہ، کہ یاں بیٹھے ہیں
ہم بنا ہستی کی اپنی، رہِ سیلاب میںڈال
دست رس ہووے تو کر مہر کا طرّہ مقراض
ساقی کے سامنے دیجے شبِ مہتاب میں ڈال
کوئے مے خانہ سے رکھ دل کو کنار اے سودا
شیشہ ٹوٹا ہے، نہ جا کر رہِ احباب میں ڈال
(مرزا رفیع سودا)
مت یہ آتش کدہ اس قطرہء سیماب میں ڈال
گھر کا گھر بیچ، ٹکے خرچ مئے ناب میں ڈال
زاہد!اسبابِ جہاں کچھ نہیں، دے آب میں ڈال
ابھی جھپکی ہے ٹُک، اے شورِ قیامت یہ پلک
صبح کا وقت ہے ظالم، نہ خلل خواب میں ڈال
کرکے معیوبِ طمع دل کہ نہ سن حرفِ درشت
یہ بری چٹ ہے، نہ اس گوہرِ نایاب میں ڈال
شمع ساں روئیے کیوں کر نہ، کہ یاں بیٹھے ہیں
ہم بنا ہستی کی اپنی، رہِ سیلاب میںڈال
دست رس ہووے تو کر مہر کا طرّہ مقراض
ساقی کے سامنے دیجے شبِ مہتاب میں ڈال
کوئے مے خانہ سے رکھ دل کو کنار اے سودا
شیشہ ٹوٹا ہے، نہ جا کر رہِ احباب میں ڈال
(مرزا رفیع سودا)