ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ! پچھلے دنوں یہیں کسی لڑی میں فیس بک کے بارے میں برادرم تابش صدیقی کا ایک شعر پڑھ کر یہ غزل یاد آگئی تھی لیکن اسے پوسٹ کرنا بھول گیا ۔ وہ لڑی بھی نجانے کہاں اوجھل ہوگئی ۔ آج یاد آیا اور موقع ملا ہے تو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔
سخن رہے گا ، سخنور بھی کم نہیں ہونگے
یہ اور بات ہے کاغذ قلم نہیں ہونگے
ملے گا شورِ ستائش تو شعر خوانوں کو
سخن شناس کنائے بہم نہیں ہونگے
جو چل بھی جائے نظر پر طلسمِ نقش و نگار
حروفِ خام تو دل پر رقم نہیں ہونگے
مذاقِ شعر بدل دے گا جب مزاجِ ہنر
خدا کا شکر ہے اُس وقت ہم نہیں ہونگے
ہمارے درد الگ ہیں ، ہمارا لہجہ الگ
کبھی بھی شورِ زمانہ میں ضم نہیں ہونگے
ہمارے سینے میں ٹوٹی ہے آکے تیغِ ستم
ہمارے بعد کسی پر ستم نہیں ہونگے
جنہیں شناخت ہماری ہی دشمنی سے ملی
رہیں گے وہ بھی نہ باقی جو ہم نہیں ہونگے
تمہارا ہجر سلامت ، تمہارے غم آباد!
کبھی اکیلے خدا کی قسم نہیں ہونگے
یہ سوچ کر میں غموں میں بھی شاد رہتا ہوں
وہ دن بھی آئیں گے رنج و الم نہیں ہونگے
عجیب راہ چلا ہوں دیارِ غربت میں
گزر گیا بھی تو نقشِ قدم نہیں ہونگے
ملا ہے کاسۂ خود دار اُس کے در سے ظہیرؔ
تمام عمر تہی دست ہم نہیں ہونگے
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ۲۰۱۷)
سخن رہے گا ، سخنور بھی کم نہیں ہونگے
یہ اور بات ہے کاغذ قلم نہیں ہونگے
ملے گا شورِ ستائش تو شعر خوانوں کو
سخن شناس کنائے بہم نہیں ہونگے
جو چل بھی جائے نظر پر طلسمِ نقش و نگار
حروفِ خام تو دل پر رقم نہیں ہونگے
مذاقِ شعر بدل دے گا جب مزاجِ ہنر
خدا کا شکر ہے اُس وقت ہم نہیں ہونگے
ہمارے درد الگ ہیں ، ہمارا لہجہ الگ
کبھی بھی شورِ زمانہ میں ضم نہیں ہونگے
ہمارے سینے میں ٹوٹی ہے آکے تیغِ ستم
ہمارے بعد کسی پر ستم نہیں ہونگے
جنہیں شناخت ہماری ہی دشمنی سے ملی
رہیں گے وہ بھی نہ باقی جو ہم نہیں ہونگے
تمہارا ہجر سلامت ، تمہارے غم آباد!
کبھی اکیلے خدا کی قسم نہیں ہونگے
یہ سوچ کر میں غموں میں بھی شاد رہتا ہوں
وہ دن بھی آئیں گے رنج و الم نہیں ہونگے
عجیب راہ چلا ہوں دیارِ غربت میں
گزر گیا بھی تو نقشِ قدم نہیں ہونگے
ملا ہے کاسۂ خود دار اُس کے در سے ظہیرؔ
تمام عمر تہی دست ہم نہیں ہونگے
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ۲۰۱۷)