نور وجدان
لائبریرین
۔سدرتہ المنتہی مقام ِِ پہچان ہے .یہ وہ مقام ہے جس سے گزر چُنیدہ لوگ کا ہوا کرتا ہے. فرشتوں کی سب سے اعلی جماعت کے سردار بھی مقامِ سدرہ سے گزر نہیں سکتے. یہ قیام کی جگہ ہے جس جاء سے زاہدین، متقین اور صالحین گزر نہیں سکتے. ... اس مقام سے آگے جانے کی سکت سچے عاشق، عارف کی ہوتی ہے ... عارفین کی جماعت لباس مجاز میں نور کی مثال ہے، جن کا حق سے وصال مقرر وقتِ مشاہدہ ہوتا رہتا ہے .. افضل ترین انسان سیدنا مجتبی، مصطفی، شہ ابرار صلی علیہ والہ وسلم ہیں، وہ اس مقام سے ایسے گزرے جیسے پلک جھپکنا جانِ عزیز کے لیے آسان ہے ...انبیاء کرام کو معراج بھی آپ کے دم سے میسر ہوئی ... جو عاشق صادق عین حق پر راضی ہوتے، پیرویِ رسول صلی علیہ والہ وسلم پر چلا، اس نے بھی اوج کو پا لیا...
سدرہ ....... حجاب کا پردہ ہے ...حجاب کی انتہا وہ مقام ہے جہاں حجابی.و بے حجابی کا فرق بہت تنگ ہوجاتا ہے اور نور کو کالے رنگ میں پانا گویا نور علی نور کی مثال ہونا ہے .....اِ س دنیا(سدرہ المنتہی) کی مثال سفید روشنی کی سی ہے جس میں بحالت خواب داخل ہونا عین حق ہے. خواب جاگتے یا سوتے دو حال میں درپیش ہوتا ہے ..لاشعور کی بیداری تحت الشعور سے مل جاتی ہے ....سب فاصلے مٹ جاتے ہیں. عیاں، نہاں اور نہاں، عیاں ہوجاتا ہے ..سب نظر میں ہونے کے باوجود کچھ دکھائی نہیں دیتا مگر دل میں اُجالا ہوتا ہے ...مقاماتِ عالیہ جب نظر پہچانتی، شناخت کرتی ہے تو تکریم میں جھک جاتی ہے ...سجدہِ شکر بجالانا لازمی ہوجاتا ہے کہ عین بیداری میں دیدار نبی کریم صلی جس کو ہوجائے، اس پر عین حق، رب باری تعالی کا دیدار لازم ہوجاتا ہے .....جس نے دیدار باری تعالی کرلیا گویا اس نے صراط مستقیم کو عبور کرلیا ...گویا اس نے حوصِ کوثر کو پالیا ... اس کی روح شافعین میں شمار کیجانے لگے گی ....
عشاق بامثال عارفین اسوہِ حسنہ کی پیروی کرتے ہیں، گویا انکی ارواح نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کی پیروی میں آپ صلی علیہ والہ وسکم کے مشابہ ہوگئیں ...سردار پیامبراں، رہنما، اسوہِ کامل کی تمثیل حق، نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم نے مسجدِ اقصی میں جب نماز پڑھائی تو آپ صلی علیہ والہ وسلم کی امامت کی اصحاب اجمعین کی ارواح شاہد ہوگئیں .... گویا اسی مقام پر امام دو جہاں کے پیچھے شاہد ہوگئیں ..یوں شاہدین کے سردار سیدنا ابوبکر صدیق نے جب معراج پالی تو انکی پیروی میں تمام اصحاب نے بھی پالی ...مقام شہادت کے بعد تصدیق لازمی تھی، وہ گواہی سیدنا ابوبکر صدیق نے دی اور صدیق کا لقب پا گئے ...گواہی بھی یوں کی ادا ...
ہے :
سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہئ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo
ان رفعتوں کے بعد آپ کو احکامات دیے گئے جن میں نماز اور شفاعت کا بطور خاص ذکر ہے ...
نماز پڑھنے سے مراد سبق سیکھ لیا جبکہ قائم کرنے سے مراد شعور کو رب کے حضور ختم کردیا ... باطن میں نور کے جلوہ افروز ہونے کے بعد وہ مقام آیا کہ گویا نماز عین حق کا مشاہدہ ہے ...عشاق کو یہ صلاحیت ودیعت کردی جاتی ہے کہ بحالت نماز حواس توازن کھو دیتے ہیں ..... ان پر ناسوتی سے جبروت، لاہوت کے نظارے عیاں ہونےلگتے ہیں ... یہ نظارے کرنے والے شافعین کا درجہ پالیتے ہیں .... یعنی جو عاشق ہے، وہی شاہد ہے، وہی صدیق ہے ... وہی سردار ہے، وہی شافعین میں سے ہے ... میراث قلم سینہ بہ سینہ چلتی ان شافعین کو مل جاتی ہے، سینہ تجلیات کا مسکن بن جاتا ہے ... چار یاروں سے سلسلہ چلتے چلتے عشاق تک جب پہنچتا ہے تو کہیں یہ مجذوب، کہیں قلندر، کہیں قطب تو کہیں ابدال کے روپ میں ملتے ہیں ....ان کے وجود مثالی ہوتے ہیں ..ہالہِ نور سراپے کے گرد اس قدر تقویت پاجاتا ہے کہ جسد خاکی اپنی اہمیت کھو دیتا ہے ..زمان و مکان کی قید سے آزاد سفر میں جسم کی مثال لباس کی سی ہوجاتی ہے کہ جب چاہا اتار دو تو جب چاہے پہن لو ...ایسے حال میں وجود کا سایہ انسان کھو دیتا ہے ..نور کی روشنی کا سایہ نہیں ہوتا کہ اسکے آگے تمام روشنیاں ہیچ ہوتی ہیں
..
سدرہ ....... حجاب کا پردہ ہے ...حجاب کی انتہا وہ مقام ہے جہاں حجابی.و بے حجابی کا فرق بہت تنگ ہوجاتا ہے اور نور کو کالے رنگ میں پانا گویا نور علی نور کی مثال ہونا ہے .....اِ س دنیا(سدرہ المنتہی) کی مثال سفید روشنی کی سی ہے جس میں بحالت خواب داخل ہونا عین حق ہے. خواب جاگتے یا سوتے دو حال میں درپیش ہوتا ہے ..لاشعور کی بیداری تحت الشعور سے مل جاتی ہے ....سب فاصلے مٹ جاتے ہیں. عیاں، نہاں اور نہاں، عیاں ہوجاتا ہے ..سب نظر میں ہونے کے باوجود کچھ دکھائی نہیں دیتا مگر دل میں اُجالا ہوتا ہے ...مقاماتِ عالیہ جب نظر پہچانتی، شناخت کرتی ہے تو تکریم میں جھک جاتی ہے ...سجدہِ شکر بجالانا لازمی ہوجاتا ہے کہ عین بیداری میں دیدار نبی کریم صلی جس کو ہوجائے، اس پر عین حق، رب باری تعالی کا دیدار لازم ہوجاتا ہے .....جس نے دیدار باری تعالی کرلیا گویا اس نے صراط مستقیم کو عبور کرلیا ...گویا اس نے حوصِ کوثر کو پالیا ... اس کی روح شافعین میں شمار کیجانے لگے گی ....
عشاق بامثال عارفین اسوہِ حسنہ کی پیروی کرتے ہیں، گویا انکی ارواح نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کی پیروی میں آپ صلی علیہ والہ وسکم کے مشابہ ہوگئیں ...سردار پیامبراں، رہنما، اسوہِ کامل کی تمثیل حق، نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم نے مسجدِ اقصی میں جب نماز پڑھائی تو آپ صلی علیہ والہ وسلم کی امامت کی اصحاب اجمعین کی ارواح شاہد ہوگئیں .... گویا اسی مقام پر امام دو جہاں کے پیچھے شاہد ہوگئیں ..یوں شاہدین کے سردار سیدنا ابوبکر صدیق نے جب معراج پالی تو انکی پیروی میں تمام اصحاب نے بھی پالی ...مقام شہادت کے بعد تصدیق لازمی تھی، وہ گواہی سیدنا ابوبکر صدیق نے دی اور صدیق کا لقب پا گئے ...گواہی بھی یوں کی ادا ...
ہے :
سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہئ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo
ان رفعتوں کے بعد آپ کو احکامات دیے گئے جن میں نماز اور شفاعت کا بطور خاص ذکر ہے ...
نماز پڑھنے سے مراد سبق سیکھ لیا جبکہ قائم کرنے سے مراد شعور کو رب کے حضور ختم کردیا ... باطن میں نور کے جلوہ افروز ہونے کے بعد وہ مقام آیا کہ گویا نماز عین حق کا مشاہدہ ہے ...عشاق کو یہ صلاحیت ودیعت کردی جاتی ہے کہ بحالت نماز حواس توازن کھو دیتے ہیں ..... ان پر ناسوتی سے جبروت، لاہوت کے نظارے عیاں ہونےلگتے ہیں ... یہ نظارے کرنے والے شافعین کا درجہ پالیتے ہیں .... یعنی جو عاشق ہے، وہی شاہد ہے، وہی صدیق ہے ... وہی سردار ہے، وہی شافعین میں سے ہے ... میراث قلم سینہ بہ سینہ چلتی ان شافعین کو مل جاتی ہے، سینہ تجلیات کا مسکن بن جاتا ہے ... چار یاروں سے سلسلہ چلتے چلتے عشاق تک جب پہنچتا ہے تو کہیں یہ مجذوب، کہیں قلندر، کہیں قطب تو کہیں ابدال کے روپ میں ملتے ہیں ....ان کے وجود مثالی ہوتے ہیں ..ہالہِ نور سراپے کے گرد اس قدر تقویت پاجاتا ہے کہ جسد خاکی اپنی اہمیت کھو دیتا ہے ..زمان و مکان کی قید سے آزاد سفر میں جسم کی مثال لباس کی سی ہوجاتی ہے کہ جب چاہا اتار دو تو جب چاہے پہن لو ...ایسے حال میں وجود کا سایہ انسان کھو دیتا ہے ..نور کی روشنی کا سایہ نہیں ہوتا کہ اسکے آگے تمام روشنیاں ہیچ ہوتی ہیں
..