سراغ دیگا کہیں جا کر ماہ و سال میں تُو - ظفر اقبال

ظفری

لائبریرین
سراغ دیگا کہیں جا کر ، ماہ و سال میں تُو
کہاں رہیگا میرے ، کوزہِ خیال میں تُو

پرائی دھوپ سے آنگن کی تیرگی اچھی
اُلجھ رہا ہے یہ ، کس روشنی کے جال سے تُو

تجھے خبر نہیں ، اُڑتی ہے خاکِ جاں کیسے
گھرا نہیں کسی ، اندیشہِ زوال میں تُو

میں دیکھتا ہوں ، لکیروں کی سرحدوں میں تجھے
لکھا ہوا ہے مرے ، دستِ کمال میں تُو

تجھے میں مانگ رہا ہوں ، یہ کس بہانے سے
چھپا ہوا ہے مری ، خواہشِ سوال میں تُو

کسی کی آنکھ سے، خوابوں کی کرچیاں چُن
اب ایک عمر سے بیٹھا ہے ، کس ملال میں تُو

کہاں گیا تیرے اندر کا ، خود پرست ظفر
بکھر گیا ہے کسی شخص کے ، جمال میں تُو

یار ! اب یہ کوئی نہیں‌ پوچھے کہ یہ کس کی غزل ہے ۔ مجھے شاعر کا نام نہیں معلوم ۔ ;)
 
غزل -سراغ دے گا کہیں جا کے ماہ و سال میں تو -ظفر اقبال

غزل
سراغ دے گا کہیں جا کے ماہ و سال میں تو
کہاں رہے گا مرے کوزہء خیال میں تو

پرائی دھوپ سے آنگن کی تیرگی اچھی
الجھ رہا ہے یہ کس روشنی کے جال میں تو

تجھے خبر نہیں اڑتی ہے خاکِ جاں کیسے
گھرا نہیں کسی اندیشہء زوال میں تو

میں دیکھتا ہوں لکیروں کی سرحدوں میں تجھے
لکھا ہوا ہے مرے دستِ کمال میں تو

تجھے میں مانگ رہا ہوں یہ کس بہانے سے
چھپا ہوا ہے مری خواہشِ سوال میں تو

کسی کی آنکھ سے خوابوں کی کرچیاں چن کر
اب ایک عمر سے بیٹھا ہے کس ملال میں تو

کہاں گیا ترے اندر کا خود پرست ظفر
بکھر گیا ہے کسی شخص کے جمال میں تو

ظفر اقبال​
 
Top