سراغ دیگا کہیں جا کر ، ماہ و سال میں تُو
کہاں رہیگا میرے ، کوزہِ خیال میں تُو
کہاں رہیگا میرے ، کوزہِ خیال میں تُو
پرائی دھوپ سے آنگن کی تیرگی اچھی
اُلجھ رہا ہے یہ ، کس روشنی کے جال سے تُو
اُلجھ رہا ہے یہ ، کس روشنی کے جال سے تُو
تجھے خبر نہیں ، اُڑتی ہے خاکِ جاں کیسے
گھرا نہیں کسی ، اندیشہِ زوال میں تُو
گھرا نہیں کسی ، اندیشہِ زوال میں تُو
میں دیکھتا ہوں ، لکیروں کی سرحدوں میں تجھے
لکھا ہوا ہے مرے ، دستِ کمال میں تُو
لکھا ہوا ہے مرے ، دستِ کمال میں تُو
تجھے میں مانگ رہا ہوں ، یہ کس بہانے سے
چھپا ہوا ہے مری ، خواہشِ سوال میں تُو
چھپا ہوا ہے مری ، خواہشِ سوال میں تُو
کسی کی آنکھ سے، خوابوں کی کرچیاں چُن
اب ایک عمر سے بیٹھا ہے ، کس ملال میں تُو
اب ایک عمر سے بیٹھا ہے ، کس ملال میں تُو
کہاں گیا تیرے اندر کا ، خود پرست ظفر
بکھر گیا ہے کسی شخص کے ، جمال میں تُو
بکھر گیا ہے کسی شخص کے ، جمال میں تُو
یار ! اب یہ کوئی نہیں پوچھے کہ یہ کس کی غزل ہے ۔ مجھے شاعر کا نام نہیں معلوم ۔