با ادب
محفلین
کہتے ہیں کہ سرتاج کا انداز ہے کچھ اور
زندگی دکھوں سے عبارت ہے ۔ لیکن خاتونِ خانہ کی زندگی کا ایک دکھ دنیا کے چیدہ چنیدہ دکھوں سے بڑھ کر ہے ۔
اس عظیم الشان دکھ کو عرف ِ عام میں سر کا تاج کہا جاتا ہے جو ہمیشہ تاراج ہی پایا گیا ہے ۔ یہ الگ بات کہ دنیا آپ سے یہ تقاضا کرنے پہ مصر رہتی ہے کہ اس باطل حقیقت کو سچ مانا جائے اور سرتاج کو تاج سمجھ کر سر پہ سجایا جائے ۔
ہمیں اس بات کو ماننے میں چنداں کوئی دشواری درپیش نہیں لیکن کیا کیجیے کہ اول تو ہمارا سر اس تاج کے شایان شان نہیں جو ہمیں سجانے کے واسطے ودیعت کیا گیا ہے ۔ دوم خود تاج کو بھی سر پہ سجنے کا کچھ ایسا خاص شوق نہیں کہ انھیں ہمارے بغیر بھیجے والے سر پہ محض سجاوٹ کے واسطے دھر دیا جائے ۔ اس طرح سرتاج نامدار کے لیے سر اور تاج کے لے اور آہنگ میں فرق کی وجہ عام روایتی طریقے سے سرتاج بننا ممکن نہیں رہا ۔
ہم نے بھی صد شکر ادا کیا اور بغیر تاج کے ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے ۔
لیکن پھر اچانک کسی نے شوشہ چھوڑا کہ یہ جو مرد ذات ہماری قسمت پھوڑنے واسطے ہم سے نتھی ہو بیٹھے ہیں یہ القاب و آداب کے بغیر پر کٹے پر کٹے سے دکھائی دیتے ہیں لہذا پہلی فرصت میں انھیں انگریز بہادر کی طرح سرکاری لقب سے نوازا جائے ۔
اور اب کہ انھیں " مجازی خد " کا نام دیا گیا ...
مجاز کی حد تک تو ہم خاموش رہے لیکن خدا کا لفظ سن کر کند چھری سے ذبح کیے جانے والے بکرے کی طرح تڑپ اٹھے ۔
غضب خدا کا مجازی مان رہے ہیں کیا یہ کافی نہیں جو خدا ساتھ لگا کر ہماری عاقبت کی خرابی پہ تل گئے ۔
ہم تو فقط ایک خدا کے قائل تھے ... یہ کوئی الطاف حسین کی متحدہ نہیں کہ حقیقی و مجازی دھڑوں میں بانٹ دیویں ... یہ ہمارا عزیز از جان عقیدہ ہے جسے ہم نے یر طرح کے خرافات سے پاک رکھنے کی اپنی سعئ لاحاصل کی حد کر دی ہے ۔
اس طرح دو القابات و خطابات ہماری کور ذوقی کی بنا پہ مسترد ہوئے ۔
پچھلے دنوں کچھ کچھ شرمندگی محسوس کرتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ صاحب کو سر کا تاج نہ سہی دل کا تاج مان لیویں گے لیکن آج اچانک ہماری ایک شوہرِ کارآمد سے ملاقات ہو گئی ۔
بیگم کا پلو پکڑے تابعداری و فرماں برداری سے ناک کی سیدھ میں چلنے کی بجائے بیگم کے نقش کف پا کی پیروی کرتے انہوں نے ہمیں اس احساس سے دوچار کروایا کہ ہمارے میاں سب کچھ ہو سکتے ہیں لیکن اگر نہیں ہو سکتے تو دل اور سر کا تاج نہیں ہوسکتے ...
تاج تو ایسے بیبے بچے بنیں اور راج ایسی بیبیاں کریں ۔
ہم نے ارشاد فرمایا .. اے دنیا و آخرت کے جنتی انسان! یہ شعور اور عاجزی کیا بچپن سے ذات گرامی کی شخصیت کا خاصہ تھیں یا خاتون کا دماغ واقعی بھیجا رکھتا ہے جس کی بنا پہ آپ انکے سر کا تاج بن بیٹھے ۔
لڑکیو اور عورتو! جس دن مارکیٹ میں اس برانڈ کے شوہر آنے لگے سبھی خواتین نے بصد شوق سروں پہ سجانے میں عار نہیں سمجھنی ۔
کہا جاتا ہے کسی شوہر کی حقیقت ملاحظہ کرنی ہو تو انھیں بیگم کے ساتھ خریداری کا فریضہ سونپ دیجیے ۔ ہمیں واثق یقین ہے جس دن ہمارے میاں اس فریضے کو نبھانے کسی بھی دکان میں داخل ہوئے دکاندار سے پہلا تقاضا سنکھیا کی چٹکی بھر مقدار کا کریں گے ۔
لیکن یہ بیبے میاں تسلی اور دلاسے سے بیگم کو یاد کرواتے رہے کہ انھیں کن کن اشیاء کی اشد ضرورت ہے اور یہ بھی کہ جو چیزیں وہ خرید رہی ہیں وہ ہر گز ہر گز قیمت میں کم نہیں ہونی چاہیئیں کہ اس سے انکے جذبہ شوہرانہ کو تسلی نہیں ہوگی اور وہ کچھ دو روپے مال والے ریڑھی کے تاج دکھائی دیں گے ۔ لہذا کسی شاہی تاج جیسا دِکھنے کے لیے وہ بصد شوق اور برضا و رغبت ذبح ہونے کو تیار رہے ۔
گھر کی صفائی ستھرائی سے تعلق رکھنے والی اشیاء کو خریدنے میں انکی ماہرانہ رائے دیکھ کر ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ۔
بھائی صاحب یہ مہارت بزور عقل ومشاہدہ نیست ... ایں ضرور بالضرور تجربہ است ...
نہایت فخر سے سینہ پھلا کے ارشاد ہوا .. پندرہ سال کی بیچلر زندگی میں ہمیں کبھی انڈا ابالنا بھی نہیں آیا لیکن ڈیڈھ سالہ شادی شدہ زندگی میں ہم نے روٹیاں پکانے سمیت سبھی کام سیکھ لیے ۔
اس بیانیے کے بعد ہم جو اپنے میاں کے ساتھ تھوڑا بہت خوشی خوشی نباہ کیے جا رہے تھے یکدم توبہ تائب ہو گئے ۔ کہ الٰہی! عمر گزار دی قلادہ پہن کہ امام صاحب کی تقلید میں لیکن نہ انھیں روٹیاں پکانی آئیں نہ گھر کی صفائی ستھرائی ....
کیا ایسے شوہر کا مجازی خدا و سرتاج وغیرہ کہلوانے کا کوئی بھی حق بنتا ہے؟ ؟؟
آپ اپنے تجربات کی روشنی میں اپنی آراء لکھیے لیکن ہمارا حتمی فیصلہ یہی ہے کہ امام صاحب فقط ایک شوہر ہیں شوہر تھے اور اگر آئندہ آنے والے سالوں میں ہم مزید کوئی سرتاج بنانے کے گُر سیکھنے سے نا بلد رہے تو وہ تا حیات فقط ایک شوہر ہی رہیں گے ۔
ایک دُکھیاری درد کی ماری بیگم
سمیرا امام
زندگی دکھوں سے عبارت ہے ۔ لیکن خاتونِ خانہ کی زندگی کا ایک دکھ دنیا کے چیدہ چنیدہ دکھوں سے بڑھ کر ہے ۔
اس عظیم الشان دکھ کو عرف ِ عام میں سر کا تاج کہا جاتا ہے جو ہمیشہ تاراج ہی پایا گیا ہے ۔ یہ الگ بات کہ دنیا آپ سے یہ تقاضا کرنے پہ مصر رہتی ہے کہ اس باطل حقیقت کو سچ مانا جائے اور سرتاج کو تاج سمجھ کر سر پہ سجایا جائے ۔
ہمیں اس بات کو ماننے میں چنداں کوئی دشواری درپیش نہیں لیکن کیا کیجیے کہ اول تو ہمارا سر اس تاج کے شایان شان نہیں جو ہمیں سجانے کے واسطے ودیعت کیا گیا ہے ۔ دوم خود تاج کو بھی سر پہ سجنے کا کچھ ایسا خاص شوق نہیں کہ انھیں ہمارے بغیر بھیجے والے سر پہ محض سجاوٹ کے واسطے دھر دیا جائے ۔ اس طرح سرتاج نامدار کے لیے سر اور تاج کے لے اور آہنگ میں فرق کی وجہ عام روایتی طریقے سے سرتاج بننا ممکن نہیں رہا ۔
ہم نے بھی صد شکر ادا کیا اور بغیر تاج کے ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے ۔
لیکن پھر اچانک کسی نے شوشہ چھوڑا کہ یہ جو مرد ذات ہماری قسمت پھوڑنے واسطے ہم سے نتھی ہو بیٹھے ہیں یہ القاب و آداب کے بغیر پر کٹے پر کٹے سے دکھائی دیتے ہیں لہذا پہلی فرصت میں انھیں انگریز بہادر کی طرح سرکاری لقب سے نوازا جائے ۔
اور اب کہ انھیں " مجازی خد " کا نام دیا گیا ...
مجاز کی حد تک تو ہم خاموش رہے لیکن خدا کا لفظ سن کر کند چھری سے ذبح کیے جانے والے بکرے کی طرح تڑپ اٹھے ۔
غضب خدا کا مجازی مان رہے ہیں کیا یہ کافی نہیں جو خدا ساتھ لگا کر ہماری عاقبت کی خرابی پہ تل گئے ۔
ہم تو فقط ایک خدا کے قائل تھے ... یہ کوئی الطاف حسین کی متحدہ نہیں کہ حقیقی و مجازی دھڑوں میں بانٹ دیویں ... یہ ہمارا عزیز از جان عقیدہ ہے جسے ہم نے یر طرح کے خرافات سے پاک رکھنے کی اپنی سعئ لاحاصل کی حد کر دی ہے ۔
اس طرح دو القابات و خطابات ہماری کور ذوقی کی بنا پہ مسترد ہوئے ۔
پچھلے دنوں کچھ کچھ شرمندگی محسوس کرتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ صاحب کو سر کا تاج نہ سہی دل کا تاج مان لیویں گے لیکن آج اچانک ہماری ایک شوہرِ کارآمد سے ملاقات ہو گئی ۔
بیگم کا پلو پکڑے تابعداری و فرماں برداری سے ناک کی سیدھ میں چلنے کی بجائے بیگم کے نقش کف پا کی پیروی کرتے انہوں نے ہمیں اس احساس سے دوچار کروایا کہ ہمارے میاں سب کچھ ہو سکتے ہیں لیکن اگر نہیں ہو سکتے تو دل اور سر کا تاج نہیں ہوسکتے ...
تاج تو ایسے بیبے بچے بنیں اور راج ایسی بیبیاں کریں ۔
ہم نے ارشاد فرمایا .. اے دنیا و آخرت کے جنتی انسان! یہ شعور اور عاجزی کیا بچپن سے ذات گرامی کی شخصیت کا خاصہ تھیں یا خاتون کا دماغ واقعی بھیجا رکھتا ہے جس کی بنا پہ آپ انکے سر کا تاج بن بیٹھے ۔
لڑکیو اور عورتو! جس دن مارکیٹ میں اس برانڈ کے شوہر آنے لگے سبھی خواتین نے بصد شوق سروں پہ سجانے میں عار نہیں سمجھنی ۔
کہا جاتا ہے کسی شوہر کی حقیقت ملاحظہ کرنی ہو تو انھیں بیگم کے ساتھ خریداری کا فریضہ سونپ دیجیے ۔ ہمیں واثق یقین ہے جس دن ہمارے میاں اس فریضے کو نبھانے کسی بھی دکان میں داخل ہوئے دکاندار سے پہلا تقاضا سنکھیا کی چٹکی بھر مقدار کا کریں گے ۔
لیکن یہ بیبے میاں تسلی اور دلاسے سے بیگم کو یاد کرواتے رہے کہ انھیں کن کن اشیاء کی اشد ضرورت ہے اور یہ بھی کہ جو چیزیں وہ خرید رہی ہیں وہ ہر گز ہر گز قیمت میں کم نہیں ہونی چاہیئیں کہ اس سے انکے جذبہ شوہرانہ کو تسلی نہیں ہوگی اور وہ کچھ دو روپے مال والے ریڑھی کے تاج دکھائی دیں گے ۔ لہذا کسی شاہی تاج جیسا دِکھنے کے لیے وہ بصد شوق اور برضا و رغبت ذبح ہونے کو تیار رہے ۔
گھر کی صفائی ستھرائی سے تعلق رکھنے والی اشیاء کو خریدنے میں انکی ماہرانہ رائے دیکھ کر ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ۔
بھائی صاحب یہ مہارت بزور عقل ومشاہدہ نیست ... ایں ضرور بالضرور تجربہ است ...
نہایت فخر سے سینہ پھلا کے ارشاد ہوا .. پندرہ سال کی بیچلر زندگی میں ہمیں کبھی انڈا ابالنا بھی نہیں آیا لیکن ڈیڈھ سالہ شادی شدہ زندگی میں ہم نے روٹیاں پکانے سمیت سبھی کام سیکھ لیے ۔
اس بیانیے کے بعد ہم جو اپنے میاں کے ساتھ تھوڑا بہت خوشی خوشی نباہ کیے جا رہے تھے یکدم توبہ تائب ہو گئے ۔ کہ الٰہی! عمر گزار دی قلادہ پہن کہ امام صاحب کی تقلید میں لیکن نہ انھیں روٹیاں پکانی آئیں نہ گھر کی صفائی ستھرائی ....
کیا ایسے شوہر کا مجازی خدا و سرتاج وغیرہ کہلوانے کا کوئی بھی حق بنتا ہے؟ ؟؟
آپ اپنے تجربات کی روشنی میں اپنی آراء لکھیے لیکن ہمارا حتمی فیصلہ یہی ہے کہ امام صاحب فقط ایک شوہر ہیں شوہر تھے اور اگر آئندہ آنے والے سالوں میں ہم مزید کوئی سرتاج بنانے کے گُر سیکھنے سے نا بلد رہے تو وہ تا حیات فقط ایک شوہر ہی رہیں گے ۔
ایک دُکھیاری درد کی ماری بیگم
سمیرا امام