پی پی میں بھی رہا ہے جی
یہ سردار نواز کے ساتھ بھی رہ چکا ہے۔سردار پہلے مشرف کے ساتھ پھر عمران پھر قادری
تنزلی کی مثال بہترین ہے
یہ سردار نواز کے ساتھ بھی رہ چکا ہے۔
مشرف صاحب کے ساتھ نہیں رہے۔سردار پہلے مشرف کے سات پھر عمران پھر قادری
تنزلی کی مثال بہترین ہے
مشرف صاحب کے ساتھ نہیں رہے۔
2 بار (1985 اور 1990) آزاد ممبر کے طور پر الیکشن جیتا، ایک بار مسلم لیگ میں شامل ہوئے پھر (1993) جونیجو لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور وزیر خارجہ رہے۔ 2008 میں پی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا، وزیر بنے اور 2 سال بعد استعفی دے دیا۔ پھر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور الیکشن سے پہلے اپنے پرانے حلقے سے ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔
ایف سی کالج کے لیکچرر شپ سے عوامی سیاست میں آنے والے 74 سالہ آصف احمد علی کی خوبی یہ رہی کہ کسی فوجی آمر کا ساتھ نہیں دیا۔ 1985 کی اسمبلی میں بھی حزب مخالف کے رکن رہے اور 2002 میں الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا۔
آگے دیکھتے ہیں کہ کیا کرتے ہیں۔
کیا پتہ اسی بیان کو یاد رکھتے ہوئے محترم طاہر القادری صاحب نے انھیں عوامی تحریک میں خوش آمدید کہا ہو۔ موصوف بھی کینڈین مسلمانوں کے لیے سود کو جائز قرار دے چکے ہیں۔سردار نے ایک دفعہ سود کے حق میں بھی بیان دیا تھا۔ غالباً نواز کے دور میں
یعنی سود کھانے کو یا سود دینے کو؟کیا پتہ اسی بیان کو یاد رکھتے ہوئے محترم طاہر القادری صاحب نے انھیں عوامی تحریک میں خوش آمدید کہا ہو۔ موصوف بھی کینڈین مسلمانوں کے لیے سود کو جائز قرار دے چکے ہیں۔
کوئی 10 سال پہلے ایک خبر نظر سے گزری تھی کہ کچھ بھارتی علما (اب یاد نہیں کون سے فقہ کے تھے) بھی غیر مسلم ملکوں کے بینکوں (خصوصاً بھارت ) میں مسلمانوں کی جمع شدہ رقم پر سود لینے کو جائز قرار دے چکے ہیں۔ ان کی منطق یہ تھی کہ کہ اگر مسلمان یہ سود بینکوں کو چھوڑ دیتے ہیں تو یہی رقم وہاں کی حکومتیں مسلمانوں کے خلاف (مثلاً کشمیر میں ) استعمال کر سکتی ہیں ۔یعنی سود کھانے کو یا سود دینے کو؟