ایم اے راجا
محفلین
ایک اور تازہ غزل برائے اصلاح و رائے عرض ہے۔
سرد صحرا کا بار سر پر ہے
تشنگی کا خمار سر پر ہے
آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے
چھوڑ جاتا جہان یہ لیکن
اپنے بچوں کا پیار سر پر ہے
شہر سارا ہوا ہے مقتل آج
ایک تختہءِ دار سر پر ہے
کربلا سا بپا ہے ہر جانب
خنجرِ تیز دھار سر پر ہے
کرگسوں کے وطن میں ہوں شاید
ایک لمبی قطار سر پر ہے
درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
آج بھی کچھ ادھار ہے سر پر
محورِ سوچ کاش بدلے وہ
موسمِ گل بہار سر پر ہے
آن پہنچا ہوں پاس منزل کے
آخری ایک خار سر پر ہے
اس سے نمٹوں تو آگے نکلوں میں
اک گھٹا اشکبار سر پر ہے
پار کیسے کروں اسے راجا
غم کا جو ریگزار سر پر ہے
تشنگی کا خمار سر پر ہے
آبلہ پا ہوں آج میں لیکن
منزلوں کی پکار سر پر ہے
چھوڑ جاتا جہان یہ لیکن
اپنے بچوں کا پیار سر پر ہے
شہر سارا ہوا ہے مقتل آج
ایک تختہءِ دار سر پر ہے
کربلا سا بپا ہے ہر جانب
خنجرِ تیز دھار سر پر ہے
کرگسوں کے وطن میں ہوں شاید
ایک لمبی قطار سر پر ہے
درد فاقوں کا یاد ہے اب تک
آج بھی کچھ ادھار ہے سر پر
محورِ سوچ کاش بدلے وہ
موسمِ گل بہار سر پر ہے
آن پہنچا ہوں پاس منزل کے
آخری ایک خار سر پر ہے
اس سے نمٹوں تو آگے نکلوں میں
اک گھٹا اشکبار سر پر ہے
پار کیسے کروں اسے راجا
غم کا جو ریگزار سر پر ہے