محمداحمد

لائبریرین
سرقہ مارکہ ذہنیت
ازمحمد احمد

چوری کو عربی میں سرقہ کہتے ہیں، چکاری کو کیا کہتے ہیں یہ جاننے کے لئے ہم ابھی تک مناسب لغت کی تلاش میں ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت میں صبر نہیں ہے تو آپ لغت کے ملنے تک سرقہ سراقی سے گزارا چلا سکتے ہیں۔

مارکہ کا لفظ غالباً مارک یا نشان سے اخذکیا گیا ہے اور مارکہ کا مطلب ہے نشان زدہ۔ اگرآپ نے اپنے بچپن میں بلی مارکہ اگربتی کا اشتہار دیکھا ہے تو آپ اسے با آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔ یعنی ایسی اگربتی جس کے ڈبے پر بلی کانشان یاتصویر ہو۔

ذہنیت کا مطلب ذہنی معیار ہے جو سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے لیکن کچھ ذہنی معیار پوری قوم کے بھی بن جاتے ہیں ۔ پوری قوم میں بہرکیف ملت کا ہر شخص شامل نہیں ہے لیکن سوادِاعظم کی سوچ اُسی قسم کی ہو جاتی ہے۔

ابھی کچھ دنوں سے ہم اپنی تحریروں میں مشکل الفاظ کو کھول کھول کر بیان کرنے لگے ہیں اورہمیں یہ وہم ہو گیا ہے کہ ہمارے قارئین کی اردو کا حال بھی ہمارے ہی جیسا ہے، اور جیسے ہم کسی تحریر میں مشکل الفاظ کی بہتا ت دیکھ کر پہلے آنکھیں اور بعد میں صفحہ بند کر لیتے ہیں ویسے ہی ہمیں لگتا ہے کہ ہماری تحریریں قارئین کی لسانی قابلیت کے لئے دعوتِ مبارزت کا کام کررہی ہیں۔ تاہم ہمارا حال اُس بچے سے سوا نہیں ہے کہ جو پانی کاگلاس ہاتھ میں لیتے ہوئےاپنے بڑوں کو ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے مم مم نہیں بلکہ پانی کہتے ہیں۔بہرکیف، اس بارہمیں جلد سے جلداپنے موضوع کی طرف لوٹنا ہے، سو فی الحال فرہنگ کو داخل دفترکیے دیتے ہیں۔

آپ نے شاید بندر روڈ ، کراچی میں سعیدغنی عطرفروش کی دوکان دیکھی ہو۔ ہم نے یہ دوکان آج سے کئی سال پہلے دیکھی تھی اور ہمیں یہاں سے کچھ منگوانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو سامنے ہی سعید غنی عطرفروش کی دوکان نظر آئی ۔ ہم جھٹ سے اندر گھس گئےاور دکاراشیاء کا مطالبہ کیا، جو اتفاق سے اُن کے پاس موجود نہیں تھی۔ ہم دوکان سے باہر آئے کہ اب کیا کیا جائے تودیکھا کہ برابر میں ایک اور سعید غنی کی دوکان ہے ۔ اس سے اگلی دوکان پر نظر دوڑائی تووہ بھی سعید غنی کی دوکان تھی۔ حتیٰ کہ اُس کے بعد والی دُوکان بھی سعید غنی کی ہی تھی۔

بعد میں پتہ چلا کہ سعید غنی عطر کے کامیاب اور مشہور و معروف تاجر ہیں اور اُن کے معروف برانڈ کی نقل کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے دیدہ دلیری سے عین اُن کے برابر دوکان کھول لی ہے اور نتیجتاً ایک ساتھ ایک ہی جیسی اور ایک ہی نام کی چار پانچ دوکانیں ہو گئی ہیں۔ یا حیرت ! اگر ان چوروں میں خدا خوفی نہیں ہے تو کیا آنکھوں میں مروت بھی نہیں ہے۔ بھلا کیسے لوگ عین برابر میں بیٹھ کرآپ کی برسوں کی محنت اور ساکھ پر ڈاکہ ڈال لیتے ہیں۔

اگر آپ حیدرآباد کے شاہی بازار میں جائیں تو وہاں بھی آپ کو یہی حال نظر آئے گا۔ اور ایک قطار میں آپ کو بے تحاشا "حاجی ربڑی" والے نظر آئیں گے۔اگر کوئی آپ کو بھیجے کہ جناب وہاں سے آپ"حاجی ربڑی" لے کر آئیں تو آپ فیصلہ ہی نہیں کر پائیں گے کہ ان میں سے وہ "حاجی" کون سا ہے جس کے پاس مجھے بھیجا گیا ہے۔کیا ربڑی بیچنا بھی اتنا مشکل کام ہے کہجس کےلئے دوسروں کے برانڈ چُرانا لازمی ہو جائے۔ یا ہم بطورِ قوم اس چوری کو چوری ہی نہیں سمجھتے اور "حاجی" کو "ربڑی" کا جنرک نام سمجھنے لگے ہیں۔

اب ہمارے ہاں یہ بھی ہونے لگا ہے کہ پہلے لوگ کسی کاروباری شخص کو کوئی دوکان کرائے پر دیتے ہیں اور جب دوکان چل پڑتی ہے تو اُس شخص کوکرائے کی دُوکان سے چلتا کرکے خود اُسی جگہ ویسی ہی دوکان کھول لیتے ہیں اور کچھ بے شرم تو پچھلے کرائے دار کی دوکان کا نام بھی استعمال کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک لودھی صاحب ہیں اُن کی آٹے کی چکی "خان آٹا چکی" کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ اب لودھی صاحب نے اپنی آٹا چکی کا نام لودھی کے بجائے خان صاحب کے نام پر کیوں رکھا یہ تو ہم خود بھی نہیں سمجھ سکے۔ لیکن ہوا یہ کہ اُن صاحب نے اپنی آٹا چکی سامنے جگہ خرید کر منتقل کر لی، تو کچھ ہی دنوں میں بالکل اُسی جگہ کم و بیش اُنہی کے نام سے ایک آٹا چکی کُھل گئی، بس نام میں اے کا اضافہ کیا اور چکی کا نام اے خان آٹا چکی ہو گیا۔یعنی دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی سے اصلی دُوکان کے سامنے جعلی دوکان کھل گئی۔

کیوں سارق و مسروق میں حائل رہیں پردے
تم شرم و مُروّت کے جنازے کو اُٹھا دو​

یعنی اگر کوئی گاہک سال چھے ماہ بعد آئے تو اُسے پتہ بھی نہ چلے کہ جس دوکان سے وہ خریداری کرنا چاہتا تھا وہ سامنے منتقل ہو گئی ہے اور یہ جعلی دوکان ہے۔ ردِ عمل میں اصلی خان آٹا چکی والوں نے بڑا بڑا لکھ کر لگایا جو ہمارے ہاں اکثر لکھا نظر آتا ہے ۔ یعنی "نقالوں سے ہُشیار" اور یہ کہ اصلی خان آٹا چکی کی دوکان یہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ایک میڈیکل اسٹور جو بہت چلنے والا تھا ۔ اُس نے دوکان تبدیل کی یا اُسے دوکان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو وہ اصل دوکان سے کچھ فاصلے پر منتقل ہو گیا۔ اور کچھ ہی دنوں میں پہلی دوکان میں پھر میڈیکل اسٹور کھل گیا اور نئے مالک نے دوکان کا نام تک بدلنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یا بددیانتی سے پرانا نام ہی چلنے دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب بھی لوگوں کی بھیڑ اصلی دوکان پر ہی رہتی ہے۔ یعنی چُرانے والے نے اُن کا نام تو چُرا لیا لیکن اُن کا برسوں کا تجربہ اور کاروباری لیاقت نہیں چُرا سکا۔

ایسی بے تحاشا کہانیاں ہیں۔ کیا کیا ذکر کیا جائے۔ ایک زمانے میں جب جیو نیوز نیا نیا لانچ ہوا تھا اور بہت مقبول ہو رہا تھا تو ہر دوسری بیکری اور ڈیری جیو کے نام سے کُھلنا شرو ع ہو گئ تھی۔ یعنی ایک مشہور نام کے سہارے پر لوگ اپنے نئے کاروبار کی بنیاد رکھنا تو گوارا کر لیتے ہیں لیکن محنت اورلگن سے اپنا نام بنانے کو عار سمجھتے رہے تھے۔

ہمارے ہاں کاروباری اخلاقیات کا اتنا فقدان ہے کہ لوگ دھڑلے سے دوسروں کا نام چرا لیتے ہیں اور کسی کی برسوں کی محنت اور ساکھ پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ محنت کرکےاپنا نام بنانے کا اعتماد ایسے لوگوں میں نام کو نہیں ہوتا اوراُن کی حاسد نگاہیں دوسروں کی کمائی پر لگی رہتی ہیں۔

حالانکہ انسان کو محنت سے اپنا نام کمانا چاہیےاور رزق کے معاملے پر رازق پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ چوری کرنے والے کامیاب بھی ہو جائیں تو وہ چور ہی رہتے ہیں اور اُن کو کبھی نہ کبھی ، کہیں نہ کہیں باز پُرس یا مکافات کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔

*****
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
بہت خوب لکھا محمد احمد بھائی۔(y)
اس کی کچھ مثالیں تو میں نے بھی دیکھیں۔ نارتھ کراچی ایک لیب تھی۔ بہت اچھی چل نکلی۔ دکان والے جو ان کے بہنوئی ہی تھے انہوں نے خالی کرائی اور اسی نام سے لیب کھول بیٹھے۔
پھر سمن آباد میں ایک جلد کے مشہور معالج ہیں نام بھول گیا ہوں لیکن ان کی دکان پر اتنا رش ہوتا ہے کہ رات ایک بجے کلینک بند کرتے ہیں۔ جس گھر میں ان کا کلینک تھا انہوں نے خالی کرایا اور ایک دوسرے جلد کے معالج کو وہاں بٹھایا اور بڑا بورڈ لگایا۔ پرانے معالج نے کچھ گھر چھوڑ کر ایک گھر کرائے پر لیا۔اب دونمبر کلینک پر ڈاکٹر اور ’’گھروالے‘‘ مکھیاں مارتے نظر آتے ہیں اور اصلی ڈاکٹر کے ہاں پھر وہی رش۔ شائد ڈاکٹر ارشد نام ہے ان کا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت عمدہ تحریر ہے احمد بھائی! اور بالکل ایسا ہی ہے کہ ہمارے ہاں یہی چلن عام ہے۔ اور اس سے زیادہ بری چیز یہ ہےکہ معاشرتی طور پر ہمیں یہ عمل قبول ہے اور اکثریت اس کو برا نہیں سمجھتی۔

اور اب شکوہ۔۔۔
ہ ہمارے قارئین کی اردو کا حال بھی ہمارے ہی جیسا ہے، اور جیسے ہم کسی تحریر میں مشکل الفاظ کی بہتا ت دیکھ کر پہلے آنکھیں اور بعد میں صفحہ بند کر لیتے ہیں
ہمیں آپ آجکل ہر جگہ رگڑ رہے ہیں۔۔۔ :at-wits-end::crying3:
 

فاخر

محفلین
ادھر بھی کچھ اسی طرح کا حال ہے بھائی!
اب دہلی میں ہی دیکھ لیں نا کہ دہلی میں سب سے مشہور اور ذائقہ میں کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہ کرنے والا واحد ہوٹل ’’کریم ہوٹل ‘‘ ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ :’ دہلی بالخصوص مسلم اکثریتی علاقہ بلیماران، چوڑی والان ، چاندی چوک ،جامعہ نگر نظام الدین جعفرآباد وغیرہ میں دسیوں ’’کریم ہوٹل ‘‘ نامی ادنیٰ ترین ہوٹل دعوت طعام دیتے نظر آتے ہیں ۔ جب کہ ’’کریم ہوٹل ‘‘ کا اکلوتا ہوٹل شاہجہانی مسجد دہلی سے متصل شمال میں واقع ہے۔اسی طرح دہلی میں ’’اگروال ( AGARWAAL) سوئٹ ہاؤس معروف ہے،لیکن کم بخت بنیوں اور حلوائیوں نے دہلی کی ہر گلی اور نکڑ پر اگروال سوئٹ ہاؤس نامی کاؤنٹر کھول رکھا ہے‘‘ ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب لکھا محمد احمد بھائی۔
بہت شکریہ رانا بھائی!
اس کی کچھ مثالیں تو میں نے بھی دیکھیں۔ نارتھ کراچی ایک لیب تھی۔ بہت اچھی چل نکلی۔ دکان والے جو ان کے بہنوئی ہی تھے انہوں نے خالی کرائی اور اسی نام سے لیب کھول بیٹھے۔
پھر سمن آباد میں ایک جلد کے مشہور معالج ہیں نام بھول گیا ہوں لیکن ان کی دکان پر اتنا رش ہوتا ہے کہ رات ایک بجے کلینک بند کرتے ہیں۔ جس گھر میں ان کا کلینک تھا انہوں نے خالی کرایا اور ایک دوسرے جلد کے معالج کو وہاں بٹھایا اور بڑا بورڈ لگایا۔
کیا کیا حرکتیں کرتے ہیں لوگ؟

پھر کس طرح اُن لوگوں کا سامنا کرتے ہوں گے یہ؟

پرانے معالج نے کچھ گھر چھوڑ کر ایک گھر کرائے پر لیا۔اب دونمبر کلینک پر ڈاکٹر اور ’’گھروالے‘‘ مکھیاں مارتے نظر آتے ہیں اور اصلی ڈاکٹر کے ہاں پھر وہی رش۔ شائد ڈاکٹر ارشد نام ہے ان کا۔

یعنی سانچ کو آنچ نہیں ہے۔ :)

لیکن پھر بھی تھوڑی بہت آنچ آ ہی جاتی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت عمدہ تحریر ہے احمد بھائی! اور بالکل ایسا ہی ہے کہ ہمارے ہاں یہی چلن عام ہے۔
کیا کیجے!
اور اس سے زیادہ بری چیز یہ ہےکہ معاشرتی طور پر ہمیں یہ عمل قبول ہے اور اکثریت اس کو برا نہیں سمجھتی۔
یہی تو المیہ ہے اور یہ تحریر لکھنے کا خیال بھی اسی لئے آیا کہ لوگ اسے بہت لائٹ لیتے ہیں۔
اور اب شکوہ۔۔۔
ہمیں آپ آجکل ہر جگہ رگڑ رہے ہیں۔۔۔ :at-wits-end:

ہاہاہاہا!

اقتباس لینے کا فن کہاں سے سیکھا آپ نے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ادھر بھی کچھ اسی طرح کا حال ہے بھائی!
اب دہلی میں ہی دیکھ لیں نا کہ دہلی میں سب سے مشہور اور ذائقہ میں کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہ کرنے والا واحد ہوٹل ’’کریم ہوٹل ‘‘ ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ :’ دہلی بالخصوص مسلم اکثریتی علاقہ بلیماران، چوڑی والان ، چاندی چوک ،جامعہ نگر نظام الدین جعفرآباد وغیرہ میں دسیوں ’’کریم ہوٹل ‘‘ نامی ادنیٰ ترین ہوٹل دعوت طعام دیتے نظر آتے ہیں ۔ جب کہ ’’کریم ہوٹل ‘‘ کا اکلوتا ہوٹل شاہجہانی مسجد دہلی سے متصل شمال میں واقع ہے۔اسی طرح دہلی میں ’’اگروال ( AGARWAAL) سوئٹ ہاؤس معروف ہے،لیکن کم بخت بنیوں اور حلوائیوں نے دہلی کی ہر گلی اور نکڑ پر اگروال سوئٹ ہاؤس نامی کاؤنٹر کھول رکھا ہے‘‘ ۔

ہم تو سمجھ رہے تھے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے لیکن یہاں تو آوے کے پڑوس میں بھی یہی مسائل ہیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے بچپن میں کپڑے دھونے کے لئے ایک Beta صابن آیا کرتا تھا۔ اپنی قسم کا یہ سب سے اچھا صابن تھا۔
پھر کچھ دنوں بعد اُس کی شہرت سے منفعت حاصل کرنے کے لئے مارکیٹ میں ایک Reta صابن بھی آ گیا، جسے بیٹا صابن کے بھاؤ بیچنے میں دوکانداروں کو زیادہ فائدہ ہوتا تھا۔ سو دوکاندار اپنے ناخن سے Reta کے R کا ڈنڈا کُھرچ دیتے تھے۔ :)

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا :quiet:

پس نوشت:
اس قسم کے صابن بغیر پیکنگ کے آیا کرتے تھے اور صابن کی بناوٹ میں ہی اس کا نام کندہ ہوتا تھا۔
 
ارے بھیا سیدھی سی بات ہے کہ اتنی محنت اب کون کرے نام اور ساکھ جب مارکیٹ میں موجود ہو تو اپنا مال پرائے برانڈ کے نام سے فروخت کر دیتے ہیں ۔ یہ چلن تو اب عام ہے لوگ شرم و حیاء کے چکر میں نہیں پڑتے دو کے چار بنانے کے چکروں میں پڑجاتے ہیں۔
تاجر ہو یا ڈاکٹر ہو یا کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہو بس امیر بننے کی دوڑ میں سرپٹ دوڑے جارہا ہے حلال و حرام کی فکر میں پڑ کر اپنی دنیا کی آسائشوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آج فیس بک کے ایک صفحے پر یہ تحریر دیکھی۔

اسے ہم سرقہ تو نہیں کہہ سکتے البتہ ستم ظریفوں نے ہمارا نام شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ :) :) :)
 

سیما علی

لائبریرین
بہت بہترین تحریر ہے ۔
ہمارے یہاں اسی کا زور ہے ۔ساری بات ہے کہ پھر دیدہ دلیری بھی دیدنی ہے ۔۔۔
انداز دیدنی ہے مرے دلنواز کا😊😊😊😊
 

محمداحمد

لائبریرین
Top