سرمستیوں میں روحِ جوانی کچل گئی!- اختر انصاری دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(اختر انصاری دہلوی)
سرمستیوں میں روحِ جوانی کچل گئی!
یعنی بہار، سوزِ بہاریں سے جل گئی
کیا یاد کر کےعشرتِ رفتہ کو رویئے
اک لہر تھی جو ناچتی گاتی نکل گئی
وہ اک لمحہ جس میں ہوئی تھی نظر دوچار
اُس ایک لمحے میں مری دنیا بدل گئی
تھی نکہتوں میں لپٹی ہوئی ایک یاد، آہ
موجِ نسیم آج کلیجہ مسل گئی
چھیڑا جو تونے ساز کے پردوں کو مطربہ!
محسوس یہ ہوا کہ مری جاں نکل گئی
یادش بخیر، عہدِ محبت کی شاعری
ایک آہ تھی جو گیت کے سانچےمیں ڈھل گئی
اختر گھٹائیں جھوم کے برسیں کچھ اس طرح
ارمان جاگ اُٹھے، تمنّا مچل گئی
 
Top