طارق شاہ
محفلین
فراق گورکھپوری
غزل
سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنّا بھی نہیں
لیکن اِس ترکِ محبّت کا بھروسہ بھی نہیں
بُھول جاتے ہیں کسی کو مگر ایسا بھی نہیں
یاد کرتے ہیں کسی کو، مگر اِتنا بھی نہیں
تم نے پُوچھا بھی نہیں، میں نے بتایا بھی نہیں
کیا مگر راز وہ ایسا تھا کہ جانا بھی نہیں
ایک مُدّت سے تِری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے، ایسا بھی نہیں
مہربانی کو محبّت نہیں کہتے، اے دوست
ہائے اب مجھ سے تجھے رنجشِ بیجا بھی نہیں
فطرتِ حُسن تو معلوم ہے، تجھ کو ہمدم
چارہ ہی کیا ہے بجُز صبر، سو ہوتا بھی نہیں
نگہِ ناز کی ںیّت کا پتہ بھی نہیں اور
دلِ دیوانہ کا ، معلوم اِرادہ بھی نہیں
بےخودی ہوش نُما، ہوش بھی غفلت آرا
اِن نِگاہوں نے کہیں کا مجھے رکھّا بھی نہیں
یوں تو ہنگامے اُٹھاتے نہیں دیوانۂ عِشق
مگر اے دوست، کچھ ایسوں کا ٹھکانہ بھی نہیں
تجھ سے سنبھلیں توسنبھال اپنے حجابِ بیباک
ہیں اُٹھانا حدِ آداب تماشہ بھی نہیں
دل کی گِنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اِس جلوہ گہِ ناز سے اُٹھتا بھی نہیں
آج غفلت بھی اِن آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
اور دلِ ہجر نصیب آج شکیبا بھی نہیں
ہم اُسے منہ سے بُرا تو نہیں کہتے، کہ فراق
دوست تیرا ہے، مگر آدمی اچھا بھی نہیں
رگھوپتی سہائے، فراق گورکھپوری