سرور و لطف سے مخمور میری شام رہے

سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

تری تلاش میں ہم ایسے بے مقام رہے
زمیں کی خاک تھے تاروں سے ہم کلام رہے

جھلک رہا ہے ترا ذکر میرے شعروں میں
ہر ایک لفظ میں پنہاں ترا ہی نام رہے

حسین لب ترے نازک گلاب جیسے ہیں
جو اک جھلک انھیں دیکھے سدا غلام رہے

خدا کی ذات ہو راضی کچھ اس طرح تجھ سے
کہ رحمتوں کا سدا تیرے گھر قیام رہے

تمھاری زلفِ پریشان کے سنورنے سے
سرور و لطف سے مخمور میری شام رہے

اگر کبھی مری کٹیا میں تم چلے آؤ
تو روشنی کا مرے گھر میں اہتمام رہے
 
جھلک رہا ہے ترا ذکر میرے شعروں میں
ہر ایک لفظ میں پنہاں ترا ہی نام رہے
ذکر کا جھلکنا مجھے کچھ عجیب لگا۔ میرے خیال میں پہلے مصرعے میں جھلک رہا ہے کے بجائے جھلکتا ہے زیادہ مناسب ہوگا مثلا
مرے سخن سے جھلکتا ہے رنگ تیرا یوں
ہر ایک میں پنہاں ترا ہی نام رہے۔

حسین لب ترے نازک گلاب جیسے ہیں
جو اک جھلک انھیں دیکھے سدا غلام رہے
پہلے مصرعے میں غیر ضروری تعقید ہے۔ اس کے علاوہ حسین، نازک اور گلاب کی گردان سے حشو و زوائد کا بھی شائبہ ہوتا ہے۔
دوسرے مصرعے انھیں ایک جھلک کے بجائے ان کو یا ان کی ایک جھلک دیکھنا کہیں تو زیادہ فصیح ہوگا۔ مثلاً
ترے گلاب سے نازک لبوں کا کیا کہنا!
کہ اک جھلک بھی جو دیکھے، سدا غلام ہے

باقی اشعار ٹھیک ہیں، خاص کر مطلع زیادہ پسند آیا۔
 
ذکر کا جھلکنا مجھے کچھ عجیب لگا۔ میرے خیال میں پہلے مصرعے میں جھلک رہا ہے کے بجائے جھلکتا ہے زیادہ مناسب ہوگا مثلا
مرے سخن سے جھلکتا ہے رنگ تیرا یوں
ہر ایک میں پنہاں ترا ہی نام رہے۔


پہلے مصرعے میں غیر ضروری تعقید ہے۔ اس کے علاوہ حسین، نازک اور گلاب کی گردان سے حشو و زوائد کا بھی شائبہ ہوتا ہے۔
دوسرے مصرعے انھیں ایک جھلک کے بجائے ان کو یا ان کی ایک جھلک دیکھنا کہیں تو زیادہ فصیح ہوگا۔ مثلاً
ترے گلاب سے نازک لبوں کا کیا کہنا!
کہ اک جھلک بھی جو دیکھے، سدا غلام ہے

باقی اشعار ٹھیک ہیں، خاص کر مطلع زیادہ پسند آیا۔
شکریہ سر
 
Top