204
10
رہائی اس گرفتار دام محبت کی عورت بد ذات کے ہاتھ سے، پھر ملک فارس کی طرف روانہ ہونا اس
بادیہ پیمانے عرصۂ الفت کا، محمود سے
ملنا اور آگاه ہونا ملكہ حسن افروز
کے حال سے
ہاں پلا دے ساقیا اک اور جام
مستیوں کا اب دکھا عالم تمام
دے لبالب بادۂ گلفام تو
لکھ دے اس آغاز کا انجام تو
طلسم کشایان جاده سخن و عزلت نشینان گوشہ رنج و محنع عقده ہائے حال گرفتاران کو ناخن تدبیر سے یوں کھولتے ہیں کہ ایک شب وہی عورت ساحره حسب معمول آرام دل کے پاس بیٹھی اختلاط کی باتیں کر رہی تھی۔ اثنائے گفتگو میں شہزادے کی نظر اس مہر پر پڑی جو وہ ساحره اپنے ہاتھ میں پہنے ہوئے تھی؛ دیکھتے ہی سیم تن پری کی باتوں کا خیال آیا۔ جی میں کہنے لگا "خير سمجهوں گا، پھر آنکھ بچا کر اور ایک بال ان بالوں میں سے جو بازو پر بندھے ہوئے تھے، نکال کر دونوں طرف سے پکڑ کے کھینچا، کچھ دیر نہ گزری تھی کہ سفید دیو ہزاروں دیو ہم راه لیے ہوئے آرام دل کے حضور میں حاضر ہوا۔ آداب و تسليمات بجا لایا اور شہزادے کو اس حال میں دیکھا، سخت متحير ہوا اور
205
گھبرایا۔ ساحره دیووں کی شکل دیکھتے ہی بہ سرعت تمام حجرے میں گئی اور غضب ناک ہو کر ایک ٹھوکر زمین پر ماری، زمين شق ہو گئی۔ صد ہا حبشی شمشیر برہنہ ہاتھوں میں لیے غل مچاتے باہر نکلے، داروگیر کا ہنگامہ ہوا، سب درهم برهم وه کارخانہ ہوا۔ دونوں طرف سے تلواریں چلنے لگیں، زمین سے خون کی ندیاں ابلنے لگیں۔ آرام دل نے سفید دیو سے کہا کہ "کھڑا کیا دیکھتا ہے، جا اور میری انگشتری اس حرافہ سے چھین لا۔" سفید دیو انگشتری کا نام سنتے ہی زرد ہو گیا، خوف سے حراساں ہوا، بید کی طرح لرزاں ہوا، جی میں کہنے لگا "بڑا غضب ہوا کہ انگشتری سلیمانی اس کے ہاتھ آئی، اب میں شہزادے کی رہائی کی کیا تدبیر کروں۔" سوچتے سوچتے ایک کشتی نظر آئی کہ زمین و آسمان کے بیچ میں گردش میں ہے، دیکھتے ہی اس کی طرف لپکا اور ایک ہی حملے میں اس کو اپنے قبضے میں کر زمین پر لايا۔ اس کشتی میں ایک پنجرا اور اس پنجرے میں ایک مینا بند تھی۔ دیو اس مینا کو نکال کر آرام دل کے پاس لایا اور کہا کہ "حضور! اس مینا کے جسم میں اس ساحرہ کی روح ہے، آپ اسے خوب تکلیف دے کر مار ڈالیے، دل کا حوصلہ نکالیے۔ پہلے اس کا ایک بازو توڑیے، پھر دوسرا، پھر ایک ٹانگ، پھر دوسری ٹانگ، پھر خوب زور سے گردن مڑوڑیے، غرض جيتا نہ چھوڑیے۔
آرام دل مينا كو ہاتھ میں لے کر چاہتا تھا کہ پہلے بازو توڑے، ساحره نے غل مچایا کہ "او شہزادے! دیکھ کیا ستم کرتا ہے، میرے احسان بھول گیا، او محسن کش! تو میرے غضب سے نہیں ڈرتا ہے": مصنف
ابھی تجھ کو مزا چکھا دوں گی
خاک ہو جائے گا جلا دوں گی
206
سفید دیو نے جواب دیا کہ "او بد بخت! ننگ خاندان!
شہنشاه قاف جو تم سب کا پیر و مرشد اور استاد ہے، تو نہیں جانتی کہ یہ شہزاده آس کا داماد ہے؛ بس خیر اسی میں ہے کہ وہ انگشتری لا، ورنہ اپنی جان سے ہاتھ اٹھا"
ساحرہ نے کہا "اچھا تو قسم کھا کہ انگشتری لے کے مینا چھڑوا دوں گا۔ دیو نے کہا "مجھے خاک پائے سلیمان کی قسم! اگر تو انگشتری دے گی تو میں پھر تیری مینا چھڑوا دوں گا ورنہ پھر وہی قسم کھاتا ہوں کہ مینا کو مار ڈالوں گا اور اس شہر کو بیخ و بنیاد سے کھدوا کر ہوا پر اڑا دوں گا۔" ساحره نے جب دیکھا کہ سوائے صلح کے اب کوئی چاره نہیں، ناچار وہ انگشتری سفید دیو کی طرف پھینکی۔ دیو نے جلدی سے شہزادے کی انگلی میں پہنا کر یوں عرض کی کہ خداوندا اب اس مینا کو چھوڑ دیجیے اور مع الخير يیاں سے تشریف لے چلیے۔"
آرام دل نے مینا کو چھوڑ دیا اور دروازے کے باہر آ کر شکر خدا کریم بجا لایا۔ پھر دیو کو رخصت کر کے کمر ہمت چست باندهی، ملک جاناں کی راہ لی اور یہ فرمایا: ذوق
رخصت اے زندان! جنوں زنجیر در کھڑکائے ہے
مژده خار دشت پھر تلوے مرے کھجلائے ہے
مئے عشق سے سرشار تھا، جھومتا تھا، خار بیابان ہر ہر گام پر قدم چومتا تھا۔ جب کوئی کانٹا آبلہ پا میں چبھ جاتا تو ہنس کر فرماتا:
خواجہ حیدر علی آتش
آبلے پاؤں کے کیا تو نے ہمارے توڑے
خار صحرا سے جنوں عرش کے تارے توڑے
دهوپ کی حدت، تپ فرقت کی شدت، اپنے حال زار پر دقت،
207
صدمہ دوری سے مرنے کی نوبت، اس حال سے جو آرام دل کا خیال آتا تو جنون اور زیاده ہوتا، یہ کہتا اور روتا: حضرت غالب
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
یعنی ہماری جیب میں اک تار بھی نہیں
شوریدگی کے حال سے ہے سر و بال دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں
ملنا اگر ترا نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے که دشوار بھی نہیں ہے
بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں
طاقت بہ قدر لذت آزار بھی نہیں
دل میں ہے یار کے صف مژگاں سے رو کشی
حالانکہ طاقت خلش خار بھی نہیں
اسی طرح ہزاروں آفتیں اور مصیبتیں جھیلتا ہوا، جان پر کھیلتا ہوا چلا جاتا تھا، فلک کے جور و ستم سے جب گھبراتا تھا تو یہ اشعار زبان پر لاتا تھا: شیخ محمد ابراهيم ذوق
رکھ مکدر بس اب اے چرخ نہ اتنا ہم کو
ہم نے جانا کہ کیا خاک سے پیدا ہم کو
اور ہم درد کہاں، ہو نہ ہو اے حضرت دل
درد اب تم کو ہمارا ہو، تمھارا ہم کو
ہر قدم پاؤں پہ سر رکھتے ہیں خار سر دشت
اے جنوں تو نے ہی کانٹوں میں گھسیٹا ہم کو
دل میں تھے قطرۂ خوں چند سو مانند حباب
نہ رہے وہ بھی جب الفت نے نچوڑا ہم کو
ہم تبرک ہیں بس اب کر لے زیارت مجنوں
سر پہ پهرتا ہے لیے آبلہ پا ہم کو
208
جب چلتے چلتے راہ کی ماندگی سے عاجز آیا، تاب و طاقت نے جواب دیا، بہت گھبرایا۔ ایک درخت سایہ دار نظر آیا، شہزادے نے افتاں و خیزاں بہر کیف اپنے تئیں وہاں تک پہنچایا۔ بے تاب تو ہو¹ ہی رہا تھا، آتے ہی یہ شعر پڑھا اور لب چشمہ گر پڑا:
جرات
نزع میں بھی تری صورت کو نہ دیکھا افسوس
مرتے مرتے بھی نہ ارمان نظر کا نکلا
محمود کہ ان کی تلاش میں دیوانہ وار دو منزلہ سہ منزلہ طے کرتا ملک تبریر کی طرف چلا جاتا تھا، حسن اتفاق سے اس روز اس صحراے پر فضا میں اس کا بھی گزر ہوا، ملکہ حسن افروز کے جذب دل کا اثر ہوا۔ محمود نے دور سے دیکھا کہ ایک شخص جور فلک ستم پیشہ سے پاے مال؛ سرگردان، پریشان، خراب حال؛ کسی کے فراق میں حالت تباه، کوئی سنگ نہ ساتھ مگر بے کسی ہم راه؛ ٹھنڈی چھاؤں میں پڑا سوتا ہے، اس کی بے کسی پر ہر برگ درخت کف افسوس مل مل کر روتا ہے۔ قريب جو آیا شہزاده آرام دل کو پایا، مارے خوشی کے جامے سے باہر نکل گیا۔ قریب تھا کہ شادی مرگ ہو جائے، مگر شہزاده آرام دل پروردۂ ناز و نعم کی مصیبت اور بے کسی کا خیال کر کے غمگین ہوا اور سنبھل گیا۔ پھر جلدی سے پانی کا چھینٹا دے کر ہوش میں لایا۔ شہزادے نے محمود کو جو اپنے پالیں پر بیٹھے دیکھا، سمجها کہ شاید میں خواب دیکھتا ہوں۔ محمود کے گلے لگ کر خوب رویا اور کہا کہ "اے محمود! جس دن سے تو مر گیا، مجھے زندہ درگور کر گیا۔ محمود نے کہا "جناب عالی! میں
1- نسخه مطبوعه 1918ء میں لفظ "ہو" نہیں ہے۔
209
زنده اور ویسا ہی بنده ہوں۔ آپ مجھے مردہ بناتے ہیں، عالم خواب میں، یہ بیداری ہے، یہ کیا کلمہ زبان مبارک سے فرماتے ہیں۔ آرام دل یہ سنتے ہی گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور "ہائے محمود" کہہ کر لپٹ گیا۔ دیر تک روتا رہا، اشکوں سے منہ دهوتا رہا۔ آخر محمود نے کہا "حضور! بہر خدا آپ چپ رہیے، میری سنیے اور اپنی کہیے۔" آرام دل نے کہا: تسكين
جس کا رفیق جس سے جدا ہو گیا ہو یار
وہ اپنی بے کسی پہ نہ روئے تو کیا کرے
محمود نے کہا "خدا حضور کو تا قیامت سلامت رکھے! یہ بجا ہے مگر خدا کے فضل سے خاکسار اب تو زنده ملا، پھر اب کس بات کا گلا ہے، شہزادے نے فرمایا اے محمود!:
حضرت غالب
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت
جگر کو مرے عشق خوں نا بہ مشرب
لکھے ہے، خدا وند نعمت سلامت
غرض آرام دل نے محمود سے اپنا حال پر رنج و ملال بیان کیا، پھر محمود نے اپنا قصہ پر غصہ عیاں کیا اور کہنے لگا کہ جس کے واسطے آپ ایسے بے قرار ہيں، جس بے وفا کے آپ مشتاق ہیں: شوق
جس کا رہ رہ کے دھیان آتا ہے
جس پہ دم دشمنوں کا جاتا ہے
کھاتے ہیں، پیتے ہیں، نہ سوتے ہیں
واسطے جس کے روز روتے ہیں
210
اسے حضور کے احوال سے آگاہ کیا، اس نے تو سن کے کچھ التفات نہ کیا اور اپنے ادنی غلاموں کے برابر بھی نہ سمجها۔ " آرام دل یہ سن کر خاموش رہا، پھر کچھ سوچ کر کہنے لگا: جرأت
"اس دل سے جو ملا نہ دل اس رشک ماہ کا
ہے یہ قصور اپنے ہی بخت سیاہ کا"
یه کہتے ہی آنسو نکل پڑے، رونے لگا، رشتہ تصور یار میں گوہر اشک پرونے لگا۔ محمود نے کہا ''حضور! سمجھنا تو درکنار، آپ کی شان میں بڑی گستاخیاں کی ہیں، بلکہ مجھے بھی چند سطریں لکھ کر دی ہیں اور کہا ہے کہ جہاں کہیں اس اجل گرفتہ کو پانا تو یہ پرچہ دکھانا۔" یہ کہہ کر نامہ شہزادے کے ہاتھ میں دیا، آرام دل نے کہا : ع
"ہرچه از دوست می رسد نیکو است"
پھر پوچھا "یہ خود اس نے لکھا ہے یا دوسرے سے لکھوایا ہے؟" محمود نے کہا "حضور! اپنے ہاتھ سے تحریر فرمایا ہے، دیکھیے تو کیسا کیسا رنگ دکھایا ہے." آرام دل نے کہا "جو کچھ ہو سو ہو: شفيق
اس کو بھی ہم ہزار سمجھتے کیں مغتنم
آتے ہیں اس کے خط جو شکایت بھرے ہوئے
اور اے محمود!: لاادری
ہاتھ کا اس کے خط لکھا لایا تیرے قاصد میں ہاتھ کے صدقے. یہ کہہ کر نامہ لیا، پہلے سات بار تصدق ہوا، پھر بوسہ دے کر بہ صد ذوق و شوق کھولا۔ نسيم
کو سرمہ خموشی نے کھلایا تحریر کو آنکھوں سےلگایا
211
ملک فارس میں پہنچنا آرام دل کا اور باغ حیات بخش
میں جانا ملكہ حسن افروز حور شمائل کا
پھول سے لب ریز بهر کر ساقیا
بادۂ گل رنگ کا ساغر پہلا
دیکھ پھر باغ معانی کی بہار
عاشق و معشوق میں بوس و کنار
زبان راقمان کیفیت گل زار اور خامہ منشيان جادو نگار سے زمين قرطاس پر یوں پھول جھڑتے ہیں کہ زاہد شب زنده دار ماہتاب تسبیح کہکشان ہاتھ میں لے کر حجرہ مغرب میں آیا اور آتشین رخ بے مہر آفتاب نے در پرده مشرق سے چہره انور دکھایا، شہزادے نے کمر ہمت چست باندھی اور محمود کے ہم راه چل نکلا اور ہر روز منزلیں طے کرتا بلبل وار اس گل گلستان رعنائی کا دم بھرتا چلا جا تا تھا۔ بارے چند روز میں ملک فارس میں داخل ہوا، تمنائے خاطر برائی مقصد دل حاصل ہوا۔
آرام دل نے پوچھا "یہ کون مقام ہے؟" محمود نے کہا "ملک دل آرام ہے۔" شہزادے نے فرمایا: مصنف
بخت اسعد کوچہ دل دار میں لایا مجھے
بعد مدت یاب تلک گردوں نے پہنچایا مجھے
اور کہا "اے محمود! لله اب دير نہ لگا، جلد اس آرام جان
سے ملا، محمود نے عرض کی "حضور! اس قدر جلدی نہ فرمائیے، ذرا
212
دم لیجیے، ٹھہر جائیے۔ پھر محمود شہزادے کو اپنے مکان میں لے گیا، سامان ضیافت کیا اور بہت سی قدر و منزلت کر کے مدارات میں مصروف ہوا۔
اب یہاں سے کچھ حال ملكہ جگر افکار کا گوش کیجیے، اور سب فراموش کیجیے کہ ایک روز ملكہ حسن افروز کو فراق دل دار میں غفلت جو آ گئی، عالم خواب میں دیکھا کہ آرام دل تنہا دشت خوف ناک میں ایک درخت کے نیچے پڑا زار زار رو رہا ہے؛ یہ کہتا ہے اور درد دل سے بے قرار ہو رہا ہے: جرأت
نزع میں بھی تری صورت کو نہ دیکھا افسوس
مرتے مرتے بھی نہ ارمان نظر کا نکلا
یہ خواب پریشان اور احوال بے تابی جاناں دیکھ کر یکایک چونک پڑی، گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ دیر تک زاویہ نشین رنج و محن رہی، بحر تفکر میں غوطہ زن رہی۔ پھر بے قرار ہو کر اور رو کر مانی سے کہنے لگی کہ "وه رشک مسیحا کب آئے گا ؟ ہم تمام ہو جائیں گے جب آئے گا؟" مصرع
پس ازاں کہ من نمانم بہ چہ کار خواھی آمد
وہ بولی "بی بی! صبر کرو، چندے اور دل بر جبر کرو: مصرع
صبر تلخ ست و لیکن بر شیریں دارد
ملكہ نے کہا يہاں تو ہر دم نفس واپسیں ہے، ہائے افسوس،
تسلی خاطر کی کوئی صورت نہیں ہے: حضرت غالب
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال¹ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
1 - نسخہ مطبوعہ 1918ء میں "راز" ہے۔
213
مرتے ہيں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
غرض مدام اس ناکام کو آه و نالے سے کام تھا، سوائے مانی اور قمرالنسا کے کسی سے گفتگو تھی نہ کلام تھا۔ نظير اکبر آبادی
کوئی کچھ پوچھے تو منہ دیکھ کے چپ رہ جانا
نہ تکلم، نہ اشارات، نہ حکایت، نہ سخن
اس دن قریب شام قمرالنسا نے آ کر کہا کہ "بیگم! سوتی ہو یا حسب معمول روتی ہو؟" ملکہ نے کہا: جرأت
"خیال خواب کہاں سوز غم سے جلتے ہیں
تمام رات پڑے کروٹیں بدلتے ہیں"
قمرالنسا نے کہا "حضور! خدا آپ کا غم و الم دور کرے، خاطر اندوه آثر مسرور کرے! آج میں باغ حیات بخش میں گئی تھی، سبحان الله عجيب طياری ہے، ہر روش پر گلگشت باد بہاری ہے۔ حضور بھی آج اس باغ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے رشک گلستان ارم فرمائیں، گل و بوٹے کی سیر سے دو گھڑی جی بہلائیں۔"
ملکہ نے فرمایا "معاف کرو، یہیں پڑا رہنے دو۔ رند
تكليف سير باغ نہ دو دل گرفتہ ہوں
طبع شگفتہ چاہیے گلزار کے لیے‘‘
قمرالنسا نے کہا "حضور! خدا کے واسطے چلیے، اگر آپ کا دل نہیں چاہتا تو میری خاطر کیجیے۔ ملکہ حسن افروز کہ قمرالنسا کو دل سے پیار کرتی تھی، اس کی خاطر سے اٹھی اور عجب ناز و انداز سے قمرالنسا کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر حیات بخش کی سیر کے واسطے چلی۔ دو قدم چلی ہو گی کہ اتی حرکت سے رگ رگ سنسنا گئی، ضعف کے سبب سر سے پاؤں تک پسینے میں نہا گئی۔