محمد ریحان قریشی
محفلین
نیستی عالمِ کیفِ دل و جاں ہے کہ جو تھا
ہست سودائے سر و خوابِ گراں ہے کہ جو تھا
غازۂ راہ شناسی ہے کہ اترا جائے
سرِ جادہ وہی منزل کا نشاں ہے کہ جو تھا
پھر تخیل کسی طوفاں کی ہے موجوں پہ سوار
وردِ لب ریگِ رواں ریگِ رواں ہے کہ جو تھا
بارہا دہر نے اوقات دکھائی ہے مجھے
بارے اپنے مگر اک حسنِ گماں ہے کہ جو تھا
مشتری کی ہے خطا یا ہے فروشندہ کا سہو
جنسِ ہستی وہی سودائے زیاں ہے کہ جو تھا
کب سر و برگِ گل و برگ و شجر ہے مجھ کو؟
سایۂ شعر میں سب حال نہاں ہے کہ جو تھا
اپنے حالات کی مجھ کو ہی نہیں کوئی خبر
سارے عالم پہ مرا حال عیاں ہے کہ جو تھا
آب کہتے ہیں جسے ہے وہ گدازِ آتش
خاک میں شعلۂ آتش نفساں ہے کہ جو تھا
دو ہی موسم ہیں فقط گلشنِ عالم کا نصیب
خوفِ پاییز پئے فصلِ خزاں ہے کہ جو تھا
ہست سودائے سر و خوابِ گراں ہے کہ جو تھا
غازۂ راہ شناسی ہے کہ اترا جائے
سرِ جادہ وہی منزل کا نشاں ہے کہ جو تھا
پھر تخیل کسی طوفاں کی ہے موجوں پہ سوار
وردِ لب ریگِ رواں ریگِ رواں ہے کہ جو تھا
بارہا دہر نے اوقات دکھائی ہے مجھے
بارے اپنے مگر اک حسنِ گماں ہے کہ جو تھا
مشتری کی ہے خطا یا ہے فروشندہ کا سہو
جنسِ ہستی وہی سودائے زیاں ہے کہ جو تھا
کب سر و برگِ گل و برگ و شجر ہے مجھ کو؟
سایۂ شعر میں سب حال نہاں ہے کہ جو تھا
اپنے حالات کی مجھ کو ہی نہیں کوئی خبر
سارے عالم پہ مرا حال عیاں ہے کہ جو تھا
آب کہتے ہیں جسے ہے وہ گدازِ آتش
خاک میں شعلۂ آتش نفساں ہے کہ جو تھا
دو ہی موسم ہیں فقط گلشنِ عالم کا نصیب
خوفِ پاییز پئے فصلِ خزاں ہے کہ جو تھا
آخری تدوین: