سید زبیر
محفلین
اس واقعے میں ہمارے سرکاری بد عنوان ملازموں کی تصویر سامنے آتی ہے تو دوسری طرف اللہ جب کسی کو عزت دینا چاہے یا ذلیل کرنا چاہے تو کیسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں یہ سب حرام کی کمائی کا نتیجہ ہے ۔ ایک سرکاری ملازم جب ملازمت اختیار کرتا ہے تو وہ اتنا رئیس نہیں ہوتا ۔ چند سوالات ہیں ،
ایف ٹین میں یہ فلیٹ افتخار نامی شخص کی ملکیت ہے جس کی کم از کم لاگت ڈیڑھ کروڑ ہوگی ۔ کیا یہ صرف عیاشی ہی کے لیے تھا ، کیا افتخار بھی سرکاری ملازم ہی ہے ۔یا کسی مکروہ کاروبار کا حصہ ؟
کمشنر پشاور کی تیمارداری کے لیے چیف منسٹر فوراً پہنچے ، تحریک انصاف کے یہ رہنما کے پی کے میں کسی دھماکے میں نہیں پہنچ پائے ۔؟
قوم و ملک کے لیے اُن کی گرانقدر خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے اب حکومت پاکستان نے جو رقم ہم سے ٹیکسوں کے زمرے میں وصول کی ہے اُس میں سے کتنی رقم پرائیویٹ ہسپتال میں یا اگر ضرورت پڑی ،جو کہ یقیناً پڑے گی بیرون ملک علاج ، پلاسٹک سرجری میں اُن پر خرچ کی جائے گی ۔؟
میڈیا اس خبر کو اُس انداز میں نہیں لے رہا جس طرح کسی سیاست دان ، غریب یا عام شہری کی اسی نوعیت کی خبر کو اچھالتا ہے ۔
وہ خاتون کس این جی اوکی تھی ؟
کیا اس افسر نما سرکاری ملازم کے بیوی بچے بھی اسی قماش کے ہیں ۔ اور حکومت پاکستان ، کا رویہ اتنا مشفقانہ کیوں ہے ۔
بے شک اللہ ہر شے پر قادر ہے ۔ گریڈوں سے یقیناً عزت نہیں بنتی ۔ایسے لوگوں کی عزت انہی قماش کے لوگوں میں ہوتی ہے ۔