سری لنکا میں بدھ مسلمان فسادات کے بعد کرفیو نافذ

جاسمن

لائبریرین
سری لنکا میں بدھ مسلمان فسادات کے بعد کرفیو نافذ
پير 16 جون 2014
140615205551_budhhist_muslim_clashes_sri_lanka_624x351_bbc_nocredit.jpg

تشدد کے واقعات کے نتیجے میں مسلمانوں کی املاک کو جلائے جانے کی اطلاعات ہیں

سری لنکا میں ایک بنیاد پرست بدھ گروپ اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے دو جنوبی شہروں میں کرفیو لگا دیا ہے۔

آلتھگاما شہر میں ایک بدھ مت کے پیروکاروں کی ریلی کے بعد تشدد شروع ہوا۔


اس تشدد کے نتیجے میں کئی لوگوں کے زخمی ہونے، ریلی میں شامل لوگوں پر پتھراؤ کرنے اور دکانیں جلانے کی اطلاعات ہیں۔

بعد میں بیرووالا شہر میں بھی کرفیو لگایا گیا جو ایک مسلم اکثریتی شہر ہے۔

بدھ مت اکثریت والے سری لنکا کی آبادی میں تقریبا 10 فیصد مسلمان ہیں۔

حالیہ دنوں میں نسلی حملوں کے بعد مسلم رہنماؤں نے صدر مہندا راج پكشے سے یہ اپیل کی کہ انہیں تشدد سے تحفظ دیا جائے۔ دوسری طرف بدھ مت کمیونٹی کا الزام ہے کہ اقلیتوں کا حکومت پر ضرورت سے زیادہ اثر ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق مسلمانوں کو مقامی بسوں سے اتار کر مارا گیا اور لوٹ مار کی خبریں بھی ہیں۔

140615205619_budhhist_muslim_clashes_sri_lanka_624x351_bbc_nocredit.jpg

بدھ اکثریت کے ملک سری لنک میں مسلمان آبادی کا دس فیصد ہیں

کہا جا رہا ہے کہ بوڈو بالا سینا یا بدھ مت بریگیڈ کی ریلی کے بعد یہ جھڑپیں شروع ہوئیں۔

تین دن پہلے ایک بدھ راہب کے ڈرائیور اور مسلم نوجوانوں کے درمیان تھوڑی سی جھڑپ بھی ہوئی تھی۔

خبروں کے مطابق ریلی منعقد کرنے کے بعد بوڈو بالا سینا نے مسلم علاقوں میں گھس کر مسلم مخالف نعرے لگائے اور پولیس کو تشدد کو دبانے کے لیے آنسو گیس استعمال کرنی پڑی۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز نے فائرنگ بھی کی۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے گھروں اور ایک مسجد پر پتھراؤ کیا گیا۔

140615231416__75544438_mayday121.jpg

بدھ تنظیم بوڈو بالا سینا کے سیکرٹری جنرل گالا بوڈا گناناسار تھیرو کی تنظیم کی ریلی کے بعد تشدد کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوا

آلتھگاما میں موجود ایک بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ حالات واضح نہیں ہیں اور کئی اور علاقوں میں تشدد پھیل گیا ہے۔

ایسا لگ رہا ہے کہ سری لنکا کے میڈیا نے تشدد کی خبریں شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کا ذکر کہیں کہیں نظر آتا ہے۔

صدر مہندا راجپكشے نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

صدر نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’حکومت کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینے دے گی۔ میں ہر ایک سے ضبط برتنے کی اپیل کرتا ہوں۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2014/06/140615_srilanka_muslim_budh_riots_tim.shtml
 

جاسمن

لائبریرین

بھارتی اسکولوں میں اقلیتی طلبہ سے ناروا سلوک، رپورٹ
'ہیومن رائٹس واچ' کے مطابق مسلمان طلبہ کے ساتھ اس متعصبانہ اور ناروا سلوک کے باعث کچھ مسلمان بچوں نے اسکول اور تعلیم کو خیر باد کہہ کر مزدوری شروع کردی ہے


22.04.2014

کراچی — بھارت میں مسلمان طلبہ سے اسکولوں میں بیت الخلا کی صفائی کا کام لینے کا انکشاف ہوا ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کچھ بھارتی اساتذہ کی جانب سے غریب اقلیتی مسلمان طلبہ سے جبری طور پر بیت الخلا صاف کرائے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کلاس رومز میں بھی ان مسلمان طالب علموں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے اور انہیں کمرہ جماعت میں علیحدہ بٹھایا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسکولوں کے ہندو بچے ان مسلمان بچوں کو ان کے اصل ناموں کے بجائے انھیں 'گندا' اور 'ملا' کہہ کر پکارتے ہیں۔

'ہیومن رائٹس واچ' کا کہنا ہے کہ مسلمان طالبعلموں کے ساتھ اس متعصبانہ اور ناروا سلوک کے باعث کچھ مسلمان بچوں نے اسکول اور تعلیم کو خیر باد کہہ کر مزدوری شروع کردی ہے جس کے زمے دار ان اسکولوں کے اساتذہ اور پرنسپلز ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے طالب علموں کو اکثر کلاس روم میں سب سے پیچھے کی نشستوں یا بالکل علیحدہ کمروں میں بٹھایا جاتا ہے جبکہ ان کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمان طلبہ کو اسکولوں میں بچا ہوا کھانا کھانے کو دیاجاتا ہے۔

یہ انکشافات 'ہیومن رائٹس واچ' کی جانب سے 77 صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی رپورٹ میں کیے گئے ہیں جو 160 کے لگ بھگ اساتذہ، پرنسپلوں اور اقلیتی مسلمان طبقے کے والدین اور طلبہ کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔
http://www.urduvoa.com/content/indi...crimination-in-schools-22apr2014/1899048.html
 

جاسمن

لائبریرین

بھارت: ہندو مسلم فسادات میں 31 افراد ہلاک، فوج تعینات
علاقے میں پولیس کے خصوصی دستے کے ڈھائی ہزار اہلکاروں اور 800 فوجیوں سمیت ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں۔


فسادات سے متاثر ہونے والے ضلع مظفر نگر کے حساس علاقوں میں کرفیو نافذ ہے

09.09.2013

واشنگٹن — بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ایک ضلع میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں 31 افراد کی ہلاکت کے بعد انتظامیہ نے متاثرہ علاقوں میں ہزاروں پولیس اہلکار اور فوجی دستے تعینات کردیے ہیں۔

پولیس کے مطابق یو پی کے ضلع مظفر نگر میں فسادات کا آغاز ہفتے کو ہوا تھا جو اتوار کو پورا دن جاری رہے۔ تاہم پولیس اور فوجی دستوں نے علاقے میں پہنچنے کے بعد پیر کی دوپہر تک صورتِ حال پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے۔

ریاست کے نائب پولیس سربراہ ارون کمار کے مطابق تشدد کے بیشتر واقعات مظفر نگر شہر اور اس کے نواحی دیہات میں پیش آئے ہیں۔

فسادات سے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور سکیورٹی اہلکاروں کے دستے مسلسل گشت کر رہے ہیں۔

حکام کے مطابق فسادات کا سبب ایک مبینہ ویڈیو بنی ہے جس میں علاقے سے تعلق رکھنے والے ان دو ہندو نوجوانوں کو کوڑے مارے جارہے ہیں جنہیں مبینہ طور پر گزشتہ ماہ قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ ویڈیو جعلی ہے۔

علاقے کے ایک عہدیدار کوشال راج شرما نے 'نیویارک ٹائمز' کو بتایا ہے کہ ویڈیو کے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جانے کے بعد ہفتے کو پانچ ہزار سے زائد کسانوں نے احتجاج کیا تھا جو بعد ازاں مشتعل ہوگئے اور قتل و غارت شروع کردی۔

علاقہ حکام کے مطابق مشتعل مظاہرین نے ہفتے کو مختلف مقامات پر حملے کرکے 13 افراد کو ہلاک کردیا تھا جس کے بعد چاقووں، لاٹھیوں اور سلاخوں سے مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ نزدیکی دیہات تک پھیل گیا۔

فسادات کے دوران میں متاثرہ علاقوں میں کئی گھروں اور دیگر املاک کو بھی نذرِ آتش کردیا گیا۔

کوشال شرما کے مطابق پیر کو دوپہر تک ہلاک ہونے والوں میں سے نصف سے زائد مسلمان ہیں۔ اتوار کی شب سے متاثرہ دیہات سے مسلمان خاندانوں کی محفوظ مقامات پر نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں مقامی ٹی وی چینل سے منسلک ایک صحافی اور پولیس کا فوٹو گرافر بھی شامل ہیں۔

پولیس افسر ارون کمار نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ حکام نے فسادات میں ملوث ہونے کے شبہ میں 90 افراد کو حراست میں لے لیا ہے جب کہ علاقے میں پولیس کے خصوصی دستے کے ڈھائی ہزار اہلکاروں اور 800 فوجیوں سمیت ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں۔

بھارت کی گنجان ترین لیکن غریب ریاست اتر پردیش کا شمار ملک کی مذہبی طور پر انتہائی حساس ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں گزشتہ تین برسوں میں مذہبی فسادات کے دوران میں ملک میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی ہیں۔

فسادات سے متاثرہ علاقے کا رخ کرنے والے ایک وفاقی وزیر سمیت حزبِ اقتدار اور اختلاف سے تعلق رکھنے والے کئی سیاست دانوں کو پولیس نے علاقے کا دورہ کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا ہے کہ ان کے جانے سے تشدد کی آگ مزید بھڑک سکتی ہے۔

ان فسادات پر بھارتی سیاست دانوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ۔

وزیرِ داخلہ سشیل کمار شنڈے نے اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ اکھیلیش یادیو پر وفاق کی جانب سے دی جانے والی وارننگز سے غفلت برتنے اور فسادات کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

جب کہ مسلمان ووٹوں پر بڑی حد تک انحصار کرنے والے ریاستی حکمران جماعت 'سماج وادی پارٹی' کے رہنماؤں نے فسادات کا ذمہ دار حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' کو ٹہرایا ہے جو ان کے بقول ہندو مسلم فسادات کراکے آئندہ عام انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

علاقہ پولیس نے ان چھ مقامی سیاسی رہنماؤں کے خلاف بھی مقدمات درج کرلیے ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ہفتے کو ہونے والے احتجاجی مظاہرے سے اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں جس پر مظاہرین نے مشتعل ہوکر مسلمانوں پر حملے شروع کردیے تھے۔

مذکورہ رہنماؤں میں سے تین کا تعلق 'بی جے پی' جب کہ ایک کا حکمران جماعت کانگریس سے ہے۔
http://www.urduvoa.com/content/mili...-india-religious-riots-09sep2013/1746110.html
 

زیک

مسافر
بھارتی اسکولوں میں اقلیتی طلبہ سے ناروا سلوک، رپورٹ
'ہیومن رائٹس واچ' کے مطابق مسلمان طلبہ کے ساتھ اس متعصبانہ اور ناروا سلوک کے باعث کچھ مسلمان بچوں نے اسکول اور تعلیم کو خیر باد کہہ کر مزدوری شروع کردی ہے


22.04.2014

کراچی — بھارت میں مسلمان طلبہ سے اسکولوں میں بیت الخلا کی صفائی کا کام لینے کا انکشاف ہوا ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کچھ بھارتی اساتذہ کی جانب سے غریب اقلیتی مسلمان طلبہ سے جبری طور پر بیت الخلا صاف کرائے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کلاس رومز میں بھی ان مسلمان طالب علموں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے اور انہیں کمرہ جماعت میں علیحدہ بٹھایا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسکولوں کے ہندو بچے ان مسلمان بچوں کو ان کے اصل ناموں کے بجائے انھیں 'گندا' اور 'ملا' کہہ کر پکارتے ہیں۔

'ہیومن رائٹس واچ' کا کہنا ہے کہ مسلمان طالبعلموں کے ساتھ اس متعصبانہ اور ناروا سلوک کے باعث کچھ مسلمان بچوں نے اسکول اور تعلیم کو خیر باد کہہ کر مزدوری شروع کردی ہے جس کے زمے دار ان اسکولوں کے اساتذہ اور پرنسپلز ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے طالب علموں کو اکثر کلاس روم میں سب سے پیچھے کی نشستوں یا بالکل علیحدہ کمروں میں بٹھایا جاتا ہے جبکہ ان کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمان طلبہ کو اسکولوں میں بچا ہوا کھانا کھانے کو دیاجاتا ہے۔

یہ انکشافات 'ہیومن رائٹس واچ' کی جانب سے 77 صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی رپورٹ میں کیے گئے ہیں جو 160 کے لگ بھگ اساتذہ، پرنسپلوں اور اقلیتی مسلمان طبقے کے والدین اور طلبہ کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔
http://www.urduvoa.com/content/indi...crimination-in-schools-22apr2014/1899048.html
http://m.hrw.org/node/124684

یہ رپورٹ صرف مسلمانوں سے متعلق نہیں ہے
 

جاسمن

لائبریرین
سری لنکا میں بدھ - مسلم فسادات، تین ہلاک
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ بودھو بالا سینا کے حامیوں نے متعدد گھروں کو نذرِ آتش کیا اور مساجد پر حملے کیے۔


16.06.2014

واشنگٹن — حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی سری لنکا میں بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے دوران تین مسلمان ہلاک اور کم از کم 75 زخمی ہوئے۔

تشدد کی یہ کارروائی اتوار کی شام گئے الوتھگاما اور بیرووالا کے ساحلی قصبوں میں ہوئی، جس سے قبل سخت گیر بودھ گروپ، بودھو بالا سینا (بی بی ایس) نے ایک ریلی نکالی، اور رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اِس کی وجہ ایک مقامی تنازعہ تھا۔

مکینوں کا کہنا ہے کہ بودھو بالا سینا کے حامیوں نے متعدد گھروں کو نذرِ آتش کیا اور مساجد پر حملے کیے۔

حکام نے اس معروف سیاحتی علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

سری لنکا کے وزیر انصاف رؤف حکیم نےبے چینی کو رفع کرنے کے لیے اقدام نہ کرنے کا ذمہ دار اپنی ہی حکومت کو قرار دیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’مسلمان مکینوں کو اضافی تحفظ فراہم کیے بغیر، حکام نے بی بی ایس کو اجتماع کی اجازت دی‘۔

ماضی میں بھی ’بودھو بالا سینا‘ مسلمان مخالف کارروائیوں میں ملوث رہی ہے، جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ اُسے حکومت کی حمایت حاصل ہے۔

مسلمانوں اور مسیحیوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں میں ملوث متعدد افراد کو سزا نہیں ہوئی۔

سری لنکا کے صدر، ماہندہ راجاپکسا نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ شدت پسندی کے اس واقعے کی تفتیش ہوگی، اور تمام فریقوں سے ضبط کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

بتایا جاتا ہے کہ تقریباً تین عشرے پرانی خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد، اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدام نہ اٹھائے جانے پر، سری لنکا کی حکومت پرنکتہ چینی کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

فوج نے مئی 2009ء میں تامل ٹائیگر باغیوں کو شکست دی، جب تنازعے میں دونوں فریق پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔
http://www.urduvoa.com/content/sri-lanka-violence/1937883.html
 

صرف علی

محفلین
خربوزہ خربوزہ کو دیکھ کر رنگ پکڑ رہا ہے جو دہشت گردی مسلمان لوگ اپنے ملک میں اقلیت کے ساتھ کرتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں دنیا میں بہت سی جگہ مسلمان اقلیت میں ہیں یہ سب کچھ ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے مگر کیا کرے کچھ لوگ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے اسلام کو استعمال کرتے ہیں جس کا خمیازہ سب کو دینا پڑتا ہے
 
Top