سر اصلاح کے لئے غزل پیش خدمت ہے

گھرا ہوں میں تلاطم میں کنارا ڈھونڈتا ہوں.
ہر اک لمحے میں قسمت کا ستارا ڈھونڈتا ہوں.
شفق کی سرخ موجوں پر ہے تیرا عکس رقصاں.
صبا کے دوش پر میں وہ نظارہ ڈھونڈتا ہوں.
ہوا ہوں دل گرفتہ صرف جس کی اک جھلک سے.
پری وش نازنیں چہرہ دوبارہ ڈھونڈتا ہوں.
فروزاں ہے تمھاری ذات طول و ارض میں جب.
فریب زیست کا پھر کیوں سہارا ڈھونڈتا ہوں.
تمھاری ذات کے محور سے نکلوں کس طرح میں.
نقوش پا میں ضم ہونے کا چارہ ڈھونڈتا ہوں.
ضرورت ہے انھیں سجاد رہ میں روشنی کی.
میں اپنا گھر جلانے کو شرارا ڈھونڈتا ہوں.
 
یوں نہیں کہا اختیار سب آپکی سارا ڈهونڈتا ہوں
حیرت اپنی کیفیت احساس کا سہارا ڈهونڈتا ہوں
موج اپنی کهوج اپنی ہم بهی قید ہیں لغزش سہی
..................
 

الف عین

لائبریرین
یہ غزل اچھی ہے بس یہ سمجھ نہیں سکا
تمھاری ذات کے محور سے نکلوں کس طرح میں.
نقوش پا میں ضم ہونے کا چارہ ڈھونڈتا ہوں.
 
ایسے سہی ہوگا شاید اس کے پیچھے پیچھے چلتے چلتے تهک گیا ہو محور اس کی ذات ہے صفات ہے رخسار ہے لب ہے آنکھیں ہیں دل اور تصور میں اس سے کهیلتے کهیلتے تهک گیا آخر انسان ہے
تب اس نے کہا اب جہاں جہاں جائے گی نقوش پا مطلب پیروں کے نشان شاید رقص کیا اس نے خیال میں
 
Top