محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جانا
کیا غضب کام ہے راضی بہ رضا ہو جانا
بند آنکھو ! وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا
اور یُوں پُھوٹ کے رونا کہ فنا ہو جانا
عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا
جب بھی تم چاہو جدا ہونا , جدا ہو جانا
تیری جانب ہے بتدریج ترقّی میری
میرے ہونے کی ہے معراج ترا ہو جانا
تیرے آنے کی بشارت کے سوا کچھ بھی نہیں
باغ میں سوکھے درختوں کا ہرا ہو جانا
اک نشانی ہے کسی شہر کی بربادی کی
ناروا بات کا یک لخت روا ہو جانا
تنگ آجاؤں محبت سے تو گاہے گاہے
اچھا لگتا ہے مجھے تیرا خفا ہو جانا
سی دیے جائیں مرے ہونٹ تو اے جانِ غزل
ایسا کرنا مری آنکھوں سے ادا ہو جانا
بے نیازی بھی وہی اور تعلق بھی وی
تمہیں آتا ہے محبت میں خدا ہو جانا
اژدھا بن کے رگ و پے کو جکڑ لیتا ہے
اتنا اسان نہیں غم سے رہا ہو جانا
اچھے اچھوں پہ برے دن ہیں لہٰذا فارس
اچھے ہونے سے تو اچھا ہے برا ہو جانا
رحمان فارس
کیا غضب کام ہے راضی بہ رضا ہو جانا
بند آنکھو ! وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا
اور یُوں پُھوٹ کے رونا کہ فنا ہو جانا
عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا
جب بھی تم چاہو جدا ہونا , جدا ہو جانا
تیری جانب ہے بتدریج ترقّی میری
میرے ہونے کی ہے معراج ترا ہو جانا
تیرے آنے کی بشارت کے سوا کچھ بھی نہیں
باغ میں سوکھے درختوں کا ہرا ہو جانا
اک نشانی ہے کسی شہر کی بربادی کی
ناروا بات کا یک لخت روا ہو جانا
تنگ آجاؤں محبت سے تو گاہے گاہے
اچھا لگتا ہے مجھے تیرا خفا ہو جانا
سی دیے جائیں مرے ہونٹ تو اے جانِ غزل
ایسا کرنا مری آنکھوں سے ادا ہو جانا
بے نیازی بھی وہی اور تعلق بھی وی
تمہیں آتا ہے محبت میں خدا ہو جانا
اژدھا بن کے رگ و پے کو جکڑ لیتا ہے
اتنا اسان نہیں غم سے رہا ہو جانا
اچھے اچھوں پہ برے دن ہیں لہٰذا فارس
اچھے ہونے سے تو اچھا ہے برا ہو جانا
رحمان فارس