یونس
محفلین
(اپنے شہر کا تعارفٗ تاریخ اورحالات )
جی ہاں! میں سرزمیں گل میں رہتا ہوں‘ یوں تو میرا سارا وطن سر زمین گل ہے‘ بلکہ گل زمیں ہے۔ جس کے بارے میں ساقی جاوید نے لکھا
اور کیا خوب لکھا ہے۔
لیکن آج سرزمین گل سے میری مراداس کا لفظی ترجمہ میرا شہر پھول نگر‘ بھائی پھیرو ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‘ بھائی پھیرو ایک سکھ کے نام پر بسایا گیا شہر ہے۔لاہور سے تقریباً ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اس شہر کے انارکلی بازار(آجکل مین بازار) کے اختتام پر ایستادہ ’گوردوارہ بھائی پھیرو‘بھی اس بات کی گواہی دینے کو موجود ہے۔سکھ مؤرخین کے مطابق‘ بھائی پھیرو‘ 1640ء میں بھائی پَنا اُپل جی کے ہاں میاں کی موڑ ضلع لاہور (آج کل میاں کے موڑ‘ بھائی پھیرو پھولنگر ضلع قصور کا ایک محلہ ہے) میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام سنگتیا تھا۔ بڑا ہوکر اس نے تجارت کا پیشہ اپنایا۔ وہ مختلف اشیاء دیگر شہروں میں لیجا کر بیچا کرتا تھا اور اس کا کاروبار کافی وسیع تھا۔ اس بناء پر اس کا نام ’پھیرو‘ (بمعنی پھیرے لگانے والا)پڑ گیا۔ یاد رہے سکھوں کے یہاں بھائی عزت و احترام کا نام ہے۔ یوں اسے بھائی پھیرو کہا جانے لگاٗ ایک دفع وہ گھی کے چندمشکیز ے لے کرتارپور بیچنے کیلئے لے جارہا تھا کہ راستے میں اس کی ملاقات ایک سکھ سادھو سے ہوئی جس نے اپنا تعارف گرو ہر رائے جی جوسکھ مت کے گیارہ گرووں میں سے ساتویں گرو ہیں‘ کے پیروکار اور مبلغ کے طور پرکروایا‘ اورنام بھائی بھگتو بتایا۔اس نے سنگتیا سے تمام کا تمام گھی اگلے دن کے ادھار پر خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ سنگتیا نے گرو ہر رائے کے احترام میں‘ بھگتو کا اتہ پتہ پوچھے بغیر‘بلا چون و چرا ٗ سارا گھی اسے دے دیا۔ اور خالی مشکیزے رکھ لئے۔ اگلے دن اسکی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے مشکیزے پھر گھی سے بھرپور پائے۔ یہ چمتکار یا معجزہ دیکھ کرسنگتیا گرو ہر رائے جی کی شخصیت کا معترف ہو گیا جنہوں نے اس کے خلوص کا یہ مول دیاتھا۔ اس نے گرو ہر رائے جی کے خاص پیروکاروں میں شامل ہونے کا ارادہ کر لیا۔ اور بھائی بھگتو سے کہا کہ وہ اسے گرو جی سے ملوا دے۔ چنانچہ بھگتو اسے گرو سے ملاقات کیلئے کرت پور لے گیا۔ گرو ہر رائے جی نے سنگتیا کی بہت عزت افزائی کی اور خصوصی بخشیش کے طور پر اسے نکہ کے علاقے میں مبلغ اور گرو کے لنگر کا بانی مقرر کر دیا۔ یوں نکہ کے علاقے میں سکھ مت کی تبلیغ و اشاعت‘ اور یہاں کے امراء سے چندہ اکٹھا کر کے غریبوں کے لئے لنگر کا اہتمام کرنا اس کی ذمہ داری قرار پایا۔ بھائی سنگتیا نے اپنے فرض کو خوب نبھایا اور اس کام کیلئے خود کو دل و جان سے وقف کر دیا۔
نکہ کا علاقہ یا نکئی مسل‘ سکھ دور حکومت کی بارہ مسلوں میں سے ایک تھی۔سکھوں کے دور عروج میں لاہور ’بھنگی مسل‘ میں شامل تھااوردریائے راوی اور ستلج کا یہ درمیانی علاقہ پنجاب کے جنوب مغرب میں واقع سندھ اور بلوچستان کی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے نکہ بمعنی گزر گاہ یا نکئی مسل کہلاتا تھا۔ اس کا صدر مقام بہڑوال کلاں تھا اور بعد ازاں یہ مسل دیپال پور‘ اوکاڑہ‘ کنگن پور‘اور گوگیرہ پر محیط ہو چکی تھی۔ اسی نکئی مسل کا حکمران خاندان نکئی بعد ازاں مشرف بہ اسلام ہوگیا تھا،اور آج بھی خطے بھر میں نمایاں سیاسی مقام کا حامل ہے۔ بہرحال‘ نکہ کے علاقے میاں کی موڑ میں بھائی پھیرو کی زیر نگرانی سکھ مت کا یہ مرکز ان دنوں بڑی شہرت پا چکا تھا۔ اور اپنے اصل نام میاں کی موڑ کی بجائے اس علاقے کو بھائی پھیرو ہی کہا جانے لگا تھا۔ یہاں تک کہ جب سکھ مذہب کے آٹھویں گرو‘ گوبند سنگھ نے خالصہ تحریک کی بنیاد رکھنے سے پہلے تمام سکھ مبلغین کو ان کے متعلقہ مراکز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے آنند پور بلوایا تو جہاں کئی مبلغین مالی بے ضابطگیوں‘ انتظامی کمزوریوں‘ اور دیگر خامیوں میں ملوث پائے وہاں بھائی پھیرو کوہرلحاظ سے بے داغ‘اجلے کردار کا حامل پایا۔ وہ بھائی پھیرو کی کارکردگی‘ خلوص‘ ایمانداری‘ لگن اور سچے جذبہ سے بے حد متاثر ہوئے۔ اسے ’سچی داڑھی‘ کے لقب سے نوازا۔ اس کے مرکز کو ’سنگت صاحب‘ کا نام دیا۔ حتیٰ کہ اپنی پگڑی کا آدھا حصہ اس کی پگڑی پر لپیٹ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھائی پھیرو کو خالصہ بننے سے بھی مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تاکہ مزید کوئی ذمہ داری اس کے بنیادی کام میں مخل نہ ہو سکے اور وہ اپنے کام پر زیادہ سے زیادہ توجہ د ے سکے۔ یوں سکھ سنتوں کی ایک نئی لڑی ’سنگت صاحب کے‘ معرض وجود میں آئی۔ بھائی پھیرو اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خلوص‘ ایماندار ی اور سچی لگن کے ساتھ سکھ مذہب کی خدمت کرتا رہا۔ یہاں تک کہ 1706ء میں اسے موت نے آلیا۔ اس کی سمادھی بھی اسی گوردوارہ سنگت صاحب میں بنائی گئی۔ گردوارہ کی موجودہ عمارت1910ء میں مہنت سنگھ اور مقامی سنگت کے تعاون سے تعمیر کی گئی اور12 دسمبر 1922ء میں ایک معاہد ے کی رُو سے گوردوارہ کی مرمت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری مہنت کے ہاتھوں گردوارہ پر بندھک کمیٹی کو سونپ دی گئی۔ کمیٹی نے مہنت کے لئے 400 روپے ماہانہ مشاہرہ کی منظوری دی۔ اس کے بعد 2200 ایکڑ زمین گردوارہ کے نام پر الاٹ کر دی گئی تاکہ گوردوارہ کے لئے مستقل آمدنی کا ذریعہ جاری رہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس گوردوارہ کا انتظام و انصرام متروکہ وقف املاک بورڈ کی نگرانی میں دے دیا گیا۔ جس نے وقتاً فوقتاً مرمت کے ساتھ ساتھ 1995ء میں اس کی چھت گر جانے پر دوبارہ تعمیر و مرمت کاکام کروایا۔ یوں مجموعی طور پرعمارت کی حالت قدرے بہتر ہے۔ اگرچہ گلیاں بازار اونچے ہو جانے کی وجہ سے عمارت کے اندر داخل ہونے کیلئے پانچ سیڑھیاں اترنا پڑتی ہیں تاہم بھائی پھیرو کی سمادھی‘ اس کے مقابل دیوان اور عمارت کے در و بام آج بھی تین صدیوں سے زائد عرصہ پر محیط تاریخ کے اوراق سے جھانکتے ہوئے اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ
عشق۔سچا جذبہ اور لگن۔ جس کےدل کو زندہ کردے‘ اسے ہرگز موت نہیں آتی۔ صفحہ ہستی پر اسکا نام انمٹ سیاہی سے لکھ دیا جاتا ہے۔
جی ہاں! میں سرزمیں گل میں رہتا ہوں‘ یوں تو میرا سارا وطن سر زمین گل ہے‘ بلکہ گل زمیں ہے۔ جس کے بارے میں ساقی جاوید نے لکھا
اور کیا خوب لکھا ہے۔
چاند میری زمیں پھول میرا وطنٗ میر ے کھیتوں کی مٹی میں لعلِ یمن
میری سرحد پہ پہرا ہے ایمان کا‘ میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا
میری سرحد پہ پہرا ہے ایمان کا‘ میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا
میرا ایک اک سپاہی ہے خیبر شکن‘
چاند میری زمیں پھول میرا وطن
چاند میری زمیں پھول میرا وطن
لیکن آج سرزمین گل سے میری مراداس کا لفظی ترجمہ میرا شہر پھول نگر‘ بھائی پھیرو ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‘ بھائی پھیرو ایک سکھ کے نام پر بسایا گیا شہر ہے۔لاہور سے تقریباً ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اس شہر کے انارکلی بازار(آجکل مین بازار) کے اختتام پر ایستادہ ’گوردوارہ بھائی پھیرو‘بھی اس بات کی گواہی دینے کو موجود ہے۔سکھ مؤرخین کے مطابق‘ بھائی پھیرو‘ 1640ء میں بھائی پَنا اُپل جی کے ہاں میاں کی موڑ ضلع لاہور (آج کل میاں کے موڑ‘ بھائی پھیرو پھولنگر ضلع قصور کا ایک محلہ ہے) میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام سنگتیا تھا۔ بڑا ہوکر اس نے تجارت کا پیشہ اپنایا۔ وہ مختلف اشیاء دیگر شہروں میں لیجا کر بیچا کرتا تھا اور اس کا کاروبار کافی وسیع تھا۔ اس بناء پر اس کا نام ’پھیرو‘ (بمعنی پھیرے لگانے والا)پڑ گیا۔ یاد رہے سکھوں کے یہاں بھائی عزت و احترام کا نام ہے۔ یوں اسے بھائی پھیرو کہا جانے لگاٗ ایک دفع وہ گھی کے چندمشکیز ے لے کرتارپور بیچنے کیلئے لے جارہا تھا کہ راستے میں اس کی ملاقات ایک سکھ سادھو سے ہوئی جس نے اپنا تعارف گرو ہر رائے جی جوسکھ مت کے گیارہ گرووں میں سے ساتویں گرو ہیں‘ کے پیروکار اور مبلغ کے طور پرکروایا‘ اورنام بھائی بھگتو بتایا۔اس نے سنگتیا سے تمام کا تمام گھی اگلے دن کے ادھار پر خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ سنگتیا نے گرو ہر رائے کے احترام میں‘ بھگتو کا اتہ پتہ پوچھے بغیر‘بلا چون و چرا ٗ سارا گھی اسے دے دیا۔ اور خالی مشکیزے رکھ لئے۔ اگلے دن اسکی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے مشکیزے پھر گھی سے بھرپور پائے۔ یہ چمتکار یا معجزہ دیکھ کرسنگتیا گرو ہر رائے جی کی شخصیت کا معترف ہو گیا جنہوں نے اس کے خلوص کا یہ مول دیاتھا۔ اس نے گرو ہر رائے جی کے خاص پیروکاروں میں شامل ہونے کا ارادہ کر لیا۔ اور بھائی بھگتو سے کہا کہ وہ اسے گرو جی سے ملوا دے۔ چنانچہ بھگتو اسے گرو سے ملاقات کیلئے کرت پور لے گیا۔ گرو ہر رائے جی نے سنگتیا کی بہت عزت افزائی کی اور خصوصی بخشیش کے طور پر اسے نکہ کے علاقے میں مبلغ اور گرو کے لنگر کا بانی مقرر کر دیا۔ یوں نکہ کے علاقے میں سکھ مت کی تبلیغ و اشاعت‘ اور یہاں کے امراء سے چندہ اکٹھا کر کے غریبوں کے لئے لنگر کا اہتمام کرنا اس کی ذمہ داری قرار پایا۔ بھائی سنگتیا نے اپنے فرض کو خوب نبھایا اور اس کام کیلئے خود کو دل و جان سے وقف کر دیا۔
نکہ کا علاقہ یا نکئی مسل‘ سکھ دور حکومت کی بارہ مسلوں میں سے ایک تھی۔سکھوں کے دور عروج میں لاہور ’بھنگی مسل‘ میں شامل تھااوردریائے راوی اور ستلج کا یہ درمیانی علاقہ پنجاب کے جنوب مغرب میں واقع سندھ اور بلوچستان کی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے نکہ بمعنی گزر گاہ یا نکئی مسل کہلاتا تھا۔ اس کا صدر مقام بہڑوال کلاں تھا اور بعد ازاں یہ مسل دیپال پور‘ اوکاڑہ‘ کنگن پور‘اور گوگیرہ پر محیط ہو چکی تھی۔ اسی نکئی مسل کا حکمران خاندان نکئی بعد ازاں مشرف بہ اسلام ہوگیا تھا،اور آج بھی خطے بھر میں نمایاں سیاسی مقام کا حامل ہے۔ بہرحال‘ نکہ کے علاقے میاں کی موڑ میں بھائی پھیرو کی زیر نگرانی سکھ مت کا یہ مرکز ان دنوں بڑی شہرت پا چکا تھا۔ اور اپنے اصل نام میاں کی موڑ کی بجائے اس علاقے کو بھائی پھیرو ہی کہا جانے لگا تھا۔ یہاں تک کہ جب سکھ مذہب کے آٹھویں گرو‘ گوبند سنگھ نے خالصہ تحریک کی بنیاد رکھنے سے پہلے تمام سکھ مبلغین کو ان کے متعلقہ مراکز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے آنند پور بلوایا تو جہاں کئی مبلغین مالی بے ضابطگیوں‘ انتظامی کمزوریوں‘ اور دیگر خامیوں میں ملوث پائے وہاں بھائی پھیرو کوہرلحاظ سے بے داغ‘اجلے کردار کا حامل پایا۔ وہ بھائی پھیرو کی کارکردگی‘ خلوص‘ ایمانداری‘ لگن اور سچے جذبہ سے بے حد متاثر ہوئے۔ اسے ’سچی داڑھی‘ کے لقب سے نوازا۔ اس کے مرکز کو ’سنگت صاحب‘ کا نام دیا۔ حتیٰ کہ اپنی پگڑی کا آدھا حصہ اس کی پگڑی پر لپیٹ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھائی پھیرو کو خالصہ بننے سے بھی مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تاکہ مزید کوئی ذمہ داری اس کے بنیادی کام میں مخل نہ ہو سکے اور وہ اپنے کام پر زیادہ سے زیادہ توجہ د ے سکے۔ یوں سکھ سنتوں کی ایک نئی لڑی ’سنگت صاحب کے‘ معرض وجود میں آئی۔ بھائی پھیرو اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خلوص‘ ایماندار ی اور سچی لگن کے ساتھ سکھ مذہب کی خدمت کرتا رہا۔ یہاں تک کہ 1706ء میں اسے موت نے آلیا۔ اس کی سمادھی بھی اسی گوردوارہ سنگت صاحب میں بنائی گئی۔ گردوارہ کی موجودہ عمارت1910ء میں مہنت سنگھ اور مقامی سنگت کے تعاون سے تعمیر کی گئی اور12 دسمبر 1922ء میں ایک معاہد ے کی رُو سے گوردوارہ کی مرمت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری مہنت کے ہاتھوں گردوارہ پر بندھک کمیٹی کو سونپ دی گئی۔ کمیٹی نے مہنت کے لئے 400 روپے ماہانہ مشاہرہ کی منظوری دی۔ اس کے بعد 2200 ایکڑ زمین گردوارہ کے نام پر الاٹ کر دی گئی تاکہ گوردوارہ کے لئے مستقل آمدنی کا ذریعہ جاری رہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس گوردوارہ کا انتظام و انصرام متروکہ وقف املاک بورڈ کی نگرانی میں دے دیا گیا۔ جس نے وقتاً فوقتاً مرمت کے ساتھ ساتھ 1995ء میں اس کی چھت گر جانے پر دوبارہ تعمیر و مرمت کاکام کروایا۔ یوں مجموعی طور پرعمارت کی حالت قدرے بہتر ہے۔ اگرچہ گلیاں بازار اونچے ہو جانے کی وجہ سے عمارت کے اندر داخل ہونے کیلئے پانچ سیڑھیاں اترنا پڑتی ہیں تاہم بھائی پھیرو کی سمادھی‘ اس کے مقابل دیوان اور عمارت کے در و بام آج بھی تین صدیوں سے زائد عرصہ پر محیط تاریخ کے اوراق سے جھانکتے ہوئے اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہَ عالم دوام او !
ثبت است بر جریدہَ عالم دوام او !
عشق۔سچا جذبہ اور لگن۔ جس کےدل کو زندہ کردے‘ اسے ہرگز موت نہیں آتی۔ صفحہ ہستی پر اسکا نام انمٹ سیاہی سے لکھ دیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)