سعیدالرحمن سعید
معطل
سر ِ خار ِ جہاں دیوانگی کا رقص کرتا ہوں
گِلِ جاں میں خود اپنے ہی لہو کا رنگ بھرتا ہوں
سمندر ہوں مگر پاؤں میں ہے زنجیر ساحل کی
مسافر ہوں مگر پائے طلب منزل پہ دھرتا ہوں
بروئے خاور ِ مستی کئی آئینے ہوتے ہیں
میں صد تِمثال ہوتا ہوں اگر خود سے گزرتا ہوں
مری نظریں نہیں آلودہء خوابِ پریشانی
میں سورج کی طرح ہر وادیء شب سے ابھرتا ہوں
میں دیوانہ سہی لیکن مری دیوانگی دیکھیں
میں سایہ ہوں مگر خورشید کی صورت پہ مرتا ہوں
سعید اب راحت ِ جاں ہے سلگتی آگ سینے کی
کہ میں اس شعلہء غم سے بہر صورت نکھرتا ہوں
سعید الرحمن سعید
گِلِ جاں میں خود اپنے ہی لہو کا رنگ بھرتا ہوں
سمندر ہوں مگر پاؤں میں ہے زنجیر ساحل کی
مسافر ہوں مگر پائے طلب منزل پہ دھرتا ہوں
بروئے خاور ِ مستی کئی آئینے ہوتے ہیں
میں صد تِمثال ہوتا ہوں اگر خود سے گزرتا ہوں
مری نظریں نہیں آلودہء خوابِ پریشانی
میں سورج کی طرح ہر وادیء شب سے ابھرتا ہوں
میں دیوانہ سہی لیکن مری دیوانگی دیکھیں
میں سایہ ہوں مگر خورشید کی صورت پہ مرتا ہوں
سعید اب راحت ِ جاں ہے سلگتی آگ سینے کی
کہ میں اس شعلہء غم سے بہر صورت نکھرتا ہوں
سعید الرحمن سعید