سر پر ہے یادِ یار کی چادر تنی ہوئی ۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم الف عین ، ظہیراحمدظہیر

سر پر ہے یادِ یار کی چادر تنی ہوئی
دھوپ اب تفکرات کی آئے چھنی ہوئی

کیوں میرِ شہر سے ہے مرا مختلف مزاج
میری خطا یہ قابلِ گردن زنی ہوئی

زنجیر کیا ہلائیں گے زنجیر بند لوگ
جب منصفی کی بات ہی ناگفتنی ہوئی

یوں چھا گیا ہے دہر پہ دورِ برہنگی
ہر سمت ایک کھیل سی عریاں تنی ہوئی

ہیں بزمِ دوستاں کے وہ احوال ان دنوں
ہر ایک لفظ تیر کی جیسے انی ہوئی

زاہد وہ دوڑ دھوپ سے جائے گی اب فقط
خلوت نشینیوں سے جو تر دامنی ہوئی

یہ دورِ اضطراب ہے تب تک بنا ہوا
جب تک ہے زندگی کی اجل سے ٹھنی ہوئی

ان کا ہے کھیل ہوش اڑایں دکھا کے خواب
دیوانوں کی ہے جان پہ لیکن بنی ہوئی​
 

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین ، ظہیراحمدظہیر

سر پر ہے یادِ یار کی چادر تنی ہوئی
دھوپ اب تفکرات کی آئے چھنی ہوئی​
دوسرے مصرعے کا بیانیہ کچھ بوجھل ہو گیا ہے، "پب" کی وجہ سے، کچھ تبدیلی کرو

کیوں میرِ شہر سے ہے مرا مختلف مزاج
میری خطا یہ قابلِ گردن زنی ہوئی​
قابل اضافی ہے، گردن زدنی کا مطلب ہی یہ ہے کہ گردن مار دیے جانے کے قابل! صرف گرد ن زدنی کافی ہے

زنجیر کیا ہلائیں گے زنجیر بند لوگ
جب منصفی کی بات ہی ناگفتنی ہوئی​
درست

یوں چھا گیا ہے دہر پہ دورِ برہنگی
ہر سمت ایک کھیل سی عریاں تنی ہوئی​
مصرع ثانی سمجھ نہیں سکا

ہیں بزمِ دوستاں کے وہ احوال ان دنوں
ہر ایک لفظ تیر کی جیسے انی ہوئی​
اس میں بھی ثانی کا بیانیہ رواں نہیں ۔" جیسے" پہلے لانے کی ضرورت ہے شاید

زاہد وہ دوڑ دھوپ سے جائے گی اب فقط
خلوت نشینیوں سے جو تر دامنی ہوئی​
اس میں بھی وضاحت کی کچھ کمی ہے

یہ دورِ اضطراب ہے تب تک بنا ہوا
جب تک ہے زندگی کی اجل سے ٹھنی ہوئی​
دور کا بننا عجیب فعل لگتا ہے
ان کا ہے کھیل ہوش اڑایں دکھا کے خواب
دیوانوں کی ہے جان پہ لیکن بنی ہوئی​
یہاں مصرع اول کا بیانیہ مجہول ہو گیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
قابل اضافی ہے، گردن زدنی کا مطلب ہی یہ ہے کہ گردن مار دیے جانے کے قابل! صرف گرد ن زدنی کافی ہے
معذرت، تم نے گردن زنی لفظ استعمال کیا ہے نہ جانے میں گردن زدنی کس طرح پڑھ گیا جب کہ وہ بحر میں ہی نہیں آتا۔ ترکیب تو درست ہے، اگرچہ ریختہ کی ڈکشنری میں گردن زنی کی مثالیں نہیں مل سکیں، صرف گردن زدنی ہی عام استعمال ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
سر پر ہے یادِ یار کی چادر تنی ہوئی
دھوپ اب تفکرات کی آئے چھنی ہوئی
دوسرے مصرعے کا بیانیہ کچھ بوجھل ہو گیا ہے، "پب" کی وجہ سے، کچھ تبدیلی کرو
سر پر ہے یادِ یار کی چادر تنی ہوئی
غم کی کڑکتی دھوپ اب/بھی آئے چھنی ہوئی

یوں چھا گیا ہے دہر پہ دورِ برہنگی
ہر سمت ایک کھیل سی عریاں تنی ہوئی
مصرع ثانی سمجھ نہیں سکا
یعنی کہ عریاں تنی اب دنیا میں محض ایک کھیل بن کر رہ گیا ہے، کوئی بڑی بات نہیں رہی۔

ہیں بزمِ دوستاں کے وہ احوال ان دنوں
ہر ایک لفظ تیر کی جیسے انی ہوئی
اس میں بھی ثانی کا بیانیہ رواں نہیں ۔" جیسے" پہلے لانے کی ضرورت ہے شاید
ہیں بزمِ دوستاں کے وہ احوال ان دنوں
ہر لفظ جیسے تیر کی ہے اک انی ہوئی

زاہد وہ دوڑ دھوپ سے جائے گی اب فقط
خلوت نشینیوں سے جو تر دامنی ہوئی
اس میں بھی وضاحت کی کچھ کمی ہے
یعنی کہ زاہد نے جو میدان عمل کو چھوڑ کر گناہ کیا ہے اب اُس کا ازالہ سخت محنت سے ہی ممکن ہے۔
یہ دورِ اضطراب ہے تب تک بنا ہوا
جب تک ہے زندگی کی اجل سے ٹھنی ہوئی
لغت میں "بنا ہوا" کے معنی کسی چیز قائم ہونے/رہنے کے بھی آ رہے ہیں۔
"یہ دورِ اضطراب ہے تب تک حیات میں"
ان کا ہے کھیل ہوش اڑایں دکھا کے خواب
دیوانوں کی ہے جان پہ لیکن بنی ہوئی
یعنی کہ خواب دکھانے والے/لیڈران/ پیشواؤں کا تو محض کھیل ہوتا ہے وہ خواب دکھاتے ہیں اور ان کے ماننے والے سر دھڑ کی بازیاں لگا دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تمہاری وضاحت ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اشعار عجز بیان کے شکار ہیں۔
مطلع کا دوسرا مصرع روان نہیں
شاید غموں کی دھوپ اب آئے.... بہتر ہو گا۔
"تنی ہوئی" سے مراد وہی "چادر تنی ہوئی" کے معنوں میں سمجھا تھا۔ بدنی کے معنی تک نہیں۔ عریاں بدنی، گل بدنی وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ "تنی" کے ساتھ نہ جانے کیوں مستعمل نہیں۔ویسے شاید تلاش سے اسناد بھی مل جائیں ۔ میں عموماً تلاش نہیں کرتا، اپنے ناقص علم پر ہی بھروسہ کر لیا کرتا ہوں۔
" انی ہوئی"! اگر اسے درست مانا جائے تب بھی مثال کے ساتھ ہوا/ہوئی استعمال نہیں ہوتے، سیدھا سادہ ہے/ہیں کہے جاتے ہیں۔ اس لئے بھی"انی ہوئی" اچھا نہیں لگتا ۔
دورِ اضطراب ہے تب تک حیات میں
پچھلا مصرع ہی اس سے رواں تر ہے۔
 
Top