دہشت گردوں کو سزائے موت پر عمل درآمد کی منظوری
وزیرِ اعظم نواز شریف نے دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث دہشت گردوں کو دی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری طرف جنرل راحیل شریف افغانستان چلے گئے ہیں، جہاں وہ افغان صدر، افغان فوج کے سربراہ اور وہاں موجود بین الاقوامی فوج کے سربراہ سے ملاقاتیں کریں گے۔
واضح رہے کہ منگل کو پشاور میں ایک سکول پر حملے میں بڑی تعداد میں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد ملک کے مختلف حلقوں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ سزائے موت کے عمل درآمد پر عائد عارضی پابندی ختم کی جائے۔
یہ اعلاان پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف کی قیادت میں پشاور میں جاری ہنگامی پارلیمانی اجلاس سے قبل ہوا ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے رہنما شرکت کر رہے ہیں۔
یہ اجلاس پشاور کے گورنر ہاؤس میں بدھ کو اب سے تھوڑی دیر قبل (12 بج کر 30 منٹ پر) شروع ہوا۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تمام جماعتوں کی مشاورت سے دہشت گردوں سے مذاکرات بھی کیے، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مقدمات کا فیصلہ کرنے والی عدالتیں بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں، اور مقدمات سالہاسال تک چلتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کی تفتیش کی کمزوریاں الگ ہیں، اور جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔
انھوں نے پارلیمان پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے سوچ بچار کریں۔
اس موقعے پر انھوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنی اپنی سرزمین کسی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
نواز شریف نے کہا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف افغانستان کے دورے پر جا رہے ہیں جس میں وہ افغان صدر، افغان فوج کے سربراہ کے علاوہ وہاں موجود بین الاقوامی فوج کے سربراہ سے بھی ملاقات کریں گے۔
پاکستانی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نہ صرف پاکستان، بلکہ افغانستان اور پورے خطے کو دہشت گردی سے پاک کر دیا جائے: ’میں نے افغان صدر اشرف غنی سے کہا کہ ہمیں ایک نیا صفحہ شروع کرنا چاہیے، جس پر صدر اشرف غنی نے کہا کہ نیا صفحہ نہیں، بلکہ ہمیں نئی کتاب شروع کرنی چاہیے۔‘
اجلاس میں پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے رہنما شرکت کر رہے ہیں۔
اس ہنگامی پارلیمانی کانفرنس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، پاکستانی کشمیر کے وزیرِ اعظم، تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان، شاہ محمود قریشی، جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق، پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن، جمیعتِ علمائے اسلام ف کے غفور حیدری، اعجاز الحق، آفتاب احمد خان شیرپاؤ، مشاہد حسین، اور دیگر رہنما شرکت کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ نواز شریف منگل کو ہنگامی دورے پر پشاور پہنچ گئے تھے جہاں انھوں نے اس واقعے کو قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ حملہ جرم کے ساتھ ساتھ پرلے درجے کی دہشت گردی اور بزدلی بھی ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔‘
ادھر میڈیا کے اطلاعات کے مطابق پشاور میں منگل کے روز ہلاک ہونے والے طلبہ کی غائبانہ نمازِ جنازہ کور ہیڈکوارٹر میں ادا کی گئی، جس میں گورنر خیبر پختونخوا، وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس پی آر، اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
دریں اثنا سانحۂ پشاور پر دنیا بھر کے رہنماؤں کی طرف سے تعزیت اور یک جہتی کے پیغامات وصول ہو رہے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے مطابق امریکی صدر براک اوباما نے وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف کو فون کر کے ہمدردی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا امریکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مدد جاری رکھے گا۔
اس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے بھی فون کر کے وزیرِ اعظم نواز شریف سے تعزیت کی اور کہا کہ ترک عوام اس موقعے پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/12/141217_emergency_meeting_zis