دولت اقوام عالم میں گردش کرتی رہتی ہے۔ اللہ نے اسے فتنہ اور آزمائش قرار دیا ہے۔ صرف ساٹھ ستر سال پہلے ہندوستان کی ریاست حیدرآباد سے زکوٰۃ کی رقم بطور امداد سعودیہ بھیجی جاتی تھی۔ 1965 تک ایک پاکستانی روپیہ کے تین ریال ملا کرتے تھے۔ اور آج کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ ہر پاکستانی حکومت کو سعودیہ منہ مانگی رقم اور سستا ترین پیٹرول فراہم کرتی ہے۔ دولت کی فراوانی نے سعودی افراد کے ”رویوں“ کو بھی تبدیل کیا ہے۔ وہاں قدرتی دولت کا جس تیزی سے جا و بے جا طریقہ استعمال ہورہا ہے، گذشتہ نصف صدی سے، شاید یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہاں بھی امارت و غربت کے درمیان خلیج حائل ہوتی جارہی ہے۔ غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہورہا ہے۔ اس دولت سے امت مسلمہ کو وہ فائدہ نہیں پہنچ رہا، جو کہ پہنچنا چاہئے تھا۔ سچ ہے دولت انفرادی زندگی میں بھی اور قوموں کی زندگی میں بھی اللہ کی طرف سے آزمائش اور فتنہ ہی ہے۔ اللہ ہم سب کو اس آزمائش میں پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین