سعودی عرب میں اب خواتین مکہ اور مدینہ کے درمیان ٹرین بھی چلا سکیں گی

سیما علی

لائبریرین

سعودی عرب میں اب خواتین مکہ اور مدینہ کے درمیان ٹرین بھی چلا سکیں گی​

17 فروری 2022
سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
یہ پہلی بار ہے کہ سعودی عرب میں ریل گاڑی چلانے کے لیے خواتین کی بھرتیاں کی جا رہی ہیں
سعودی عرب میں موجود ایک ریل کمپنی کا کہنا ہے کہ خواتین کو بطور ڈرائیور بھرتی کرنے کی 30 آسامیوں پر اسے 28 ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ منتخب ہونے والی خواتین کو ایک سال کی تربیت دی جائے گی اور وہ مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ اور مدینہ کے درمیان چلنے والی ہائی سپیڈ یعنی تیز رفتار ریل گاڑیاں چلائیں گی۔
یہ پہلی بار ہے کہ قدامت پسند مسلمان سلطنت میں خواتین کی اس قسم کی ملازمت کے لیے اشتہار دیا گیا ہو۔
دہائیوں تک سعودی عرب دنیا کے ان ممالک میں شامل رہا، جہاں کام کرنے والی خواتین کی تعداد دنیا میں کم ترین سطح پر رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں حکومتی سطح پر نوکریوں میں خواتین کی تعداد بڑھنا ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے تیل پر انحصار کرنے والی ملکی معیشت کو تنوع دینے کے منصوبے کا حصہ ہے۔
اس میں بہت سی معاشرتی اصلاحات بھی شامل ہیں، جن میں خواتین کی ڈرائیونگ پر لگی پابندی کو ختم کرنا اور خواتین کے آزادانہ سفر کرنے پر لگی پابندیوں کو ملک میں مردوں کی سرپرستی کے حوالے سے موجود قوانین میں نرمی کر کے ختم کیا گیا۔
ان تبدیلیوں کے بعد سامنے آنے والے تنائج میں یہ دیکھا گیا ہے کہ افرادی قوت میں گذشتہ پانچ برس میں عورتوں کی تعداد تقریباً دگنی ہو کر 33 فیصد تک ہو گئی اور گذشتہ برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران مردوں کی نسبت افرادی قوت میں عورتوں کی تعداد زیادہ رہی۔
امریکہ میں موجود ایک تھنک ٹینک بروکنگ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے گذشتہ برس شائع ہونے والی تحقیق کےمطابق سعودی عرب میں اب بھی زیادہ تر نوکریوں اور خاص طور پر پبلک سیکٹر میں مردوں کی اکثریت ہے۔
ہسپانوی ریل کمپنی ’رینفی‘ کی جانب سے خواتین ڈرائیورز کو بھرتی کیے جانا ممکنہ طور پر ان میں سے بہت کم خواتین کی خواہش کو پورا کر سکے گا جو پبلک سیکٹر میں نوکری کرنا چاہتی ہیں۔
بڑی یا اہم سماجی اصلاحات کے باوجود سعودی خواتین کو اب بھی شادی کرنے، جیل سے نکلنے یا صحت کے حوالے سے مخصوص سہولیات لینے کے لیے مرد سرپرست کی اجازت لینی پڑتی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں اب بھی خواتین کو شادی، خاندان، طلاق اور بچوں سے متعلق فیصلوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 
Top