آخر میں صرف ایک درخواست محترم ظفری صاحب سے کہ اگر آپ اجازت دے تو میں اہل تشیع حضرات کے عقائد ان کے حوالوں اور سکین صفحات کے ساتھ پیش کروں؟اس کے بعد آپ ہی مسلمان کہے، تو مان لوں اور محترم حسینی صاحب یا تو ان حوالوں کو قبول کرے یا لعنت بھیج کر رد کردے
والسلام
چونکہ آپ نے مجھے اس پوسٹ میں مخاطب کیا ہے تو میرا بھی اس بارے میں نکتہِ نظر سن لیں ۔ مگر میں عموماً ایسی ابحاث سے پرہیز کرتا ہوں ۔ جن میں بنیادی عقیدے یا ایمانیات سے زیادہ فروعی عقیدے ، مسالک اور سیاسی فیصلے یا فتوی ٰکا غلبہ ہوتا ہے ۔
جن عقائد اور نظریات کا آپ اہلِ تشیع کے حوالے سے ذکر کررہے ہیں ۔ بلکل ایسے ہی عقائد اور نظریات میں آپ کو سنیوں میں بھی دکھا سکتا ہوں ۔ مجھے اہلِ تشیع کے چندعقائد سے اختلاف ہے ۔ بلکل اُسی طرح جیسے مجھے اپنے کچھ سنیوں عالموں سے اختلاف ہے ۔ مگر اس اختلاف کی نوعیت کیا ہونی چاہیئے ۔ کیا اس کی معراج نفرت ، بغض ، کینہ ، تعصب اور دشمنی ہونی چاہیئے ۔ یا ہم کو وہ رویہ اپنانا چاہیئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنایا ۔ یعنی ہمارا کام کسی کی غلطی واضع کر دینا ہے ۔ اور یہ طریقہ کار دلائل اور استدلال کی بنیاد پر ہوگا ۔ بس ہماری یہی حد ہے ۔ کسی کو مسلم امہ سے کاٹ دینے کا حق میرا ہے نہ آپ کا اور نہ ہی کسی کو یہ حق حاصل ہے ۔ آپ کسی کے عقائد کی بنیاد پر پفلٹ یا اسی طرح کی اور کسی دستاویز مہیا کر آپ انہیں مسلمانوں کے دائرے سے باہر نہیں نکال سکتے ۔ اس پر ایک مکمل اجماع ہوتا ہے ۔ پھر اس پر اسٹیٹ اپنا اقدام کرتی ہے ۔ الحمداللہ اہل ِ تشیع پاکستان کی اسٹیٹ کے مطابق مسلم ہیں ۔ اور سعودیہ کی حکومت ان کو مسلم ہونے کے ناطے حج اور عمرہ اور دیگر زیارت میں میزبانی بھی کرتی ہے ۔ مسلم امہ کا ایک بڑا عالم ان کو مسلم گردانتا ہے ۔ آپ محض چند ایسے فروعی مسئلے جو تھوڑی سی ردو بدل کیساتھ سنیوں میں بھی بہت عام ہیں ۔ اس کی بنیاد پر مسلمانوں کے دائرے سے کاٹ نہیں سکتے ۔
میرے مطابق کسی فرقے کی کتابوں میں موجود روایتوں کی بنیاد پر کسی کے عقیدے کے بارے میں رائے قائم کرنا صحیح نہیں ہے ۔ بلکل اسی طرح جیسے سُنیوں میں " بخاری شریف " مستندکتابوں میں سے ایک مستند ترین کتاب سمجھی جاتی ہے ۔ آپ پڑھیں اور دیکھیں کہ اس میں ایک روایت میں لکھا ہے کہ قرآن مجید کی فلاں آیت اور فلاں آیت کس طرح کی ہے ۔ اس میں الفاظ کم و بیش ہیں ۔ اب میں وہ روایت نقل کروں اور کہوں کہ اہلِ سنت حضرات قرآن میں کمی وبیشی کے قائل ہیں ۔ کیا آپ اس بات کو علمی اور دینی دیانت کے قابل سمجھیں گے ۔ ؟
آپ دیکھیں کہ پچھلے دس بارہ صدیوں میں اہل تشیع میں چار بہت بڑے علماء پیدا ہوئے ہیں ۔ جن کے بارے میں اہلِ تشیع میں اتفاق ہے کہ اُن سے بڑے علماء اہلِ تشیع میں پیدا نہیں ہوئے ۔ ان چاروں نے بلاتردد بغیر کسی ادنی ٰ درجے کے یہ بات کہی ہے کہ " یہ قرآن وہی ہے جو اس وقت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ۔ ہم اس میں ایک لفظ کی کمی کے قائل ہیں اور نہ ہی ایک لفظ کی بیشی کے قائل ہیں "۔
آپ امام خوئی کے بارے میں کیا کہیں گے کہ وہ کتنے بڑے عالم ہیں ۔ آپ ان کی کتاب " البیان" پڑھ لیں جو دراصل قرآن کے بارے میں ہی ہے ۔ انہوں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے قرآن کے بارے میں تمام اعتراضات کے بارے میں جواب دیا ہے ۔ او رکہا ہے کہ " ہم قرآن کو بلکل ویسے ہی مانتے ہیں ۔ جیسا کہ آج یہ امت کے ہاتھ میں ہے ۔ " یہ کتاب عام ملتی ہے آپ اس کا مطالعہ کریں ۔
اللہ کا دین کے بارے میں سیکھایا ہوا اصول یہ ہے کہ جب آپ کسی گروہ ، فرقے یا جماعت کے بارے میں کوئی اختلاف یا تنقید کریں تو آپ بہت اچھی طرح ان کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ اس بارے میں ان کے ہاں ذمہ دار لوگوں کا موقف کیا ہے ۔یہ بلکل ایسے ہی ہوگاکہ اگر ہم مزاروں پر جائیں اور وہاں سجدہ ریز لوگوں کو دیکھیں اور واپس آکر کہیں کہ سُنی لوگوں کا مذہب یا عقیدہ یہ ہے ۔
میرا خیال ہے کہ میرا نکتہِ نظر واضع ہو گیا ہوگا کہ جب آپ کسی گروہ یا جماعت کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے جائیں تو سب سے پہلے اس گروہ یا جماعت کے ذمہ دار اور جلیل القدر علماء کی تصانیف اور علمی کاوشوں کا ضرور مطالعہ کرلیں ۔ اس نتیجے میں آپ کسی فرقے یا فرد کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہوسکیں گے ۔