سعودی عرب کے بے بس پاکستانی تارکین وطن کی فریاد...سیف و سبو…شفقت نذیر

صرف علی

محفلین
سعودی عرب کے بے بس پاکستانی تارکین وطن کی فریاد...سیف و سبو…شفقت نذیر
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif


کوئی دانشور اپنی تخلیقات کی تکمیل کے لئے صبح سویرے سمندر کا رخ کرتا تھا اُس کی عادت تھی کہ کام کا آغاز کرنے سے پہلے وہ ساحل پر چہل قدمی کیا کرتا تھا۔ ایک روز وہ اپنی اسی عادت میں مشغول تھا کہ اُسے کچھ دور کنارے پر ایک انسانی ہیولا کسی رقاص کی مانند حرکت کرتا دکھائی دیا۔ وہ متجسس ہوا کہ یہ کون ہے جو دن کا آغاز رقص سے کرتا ہے۔ جب دانشور اُس کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک نوجوان ہے جو رقص نہیں کررہا تھا بلکہ ساحل پر جھک کر کوئی شے اُٹھاتا اور پھر اُسے دور سمندر میں پھینک دیتا۔ دانشمند اُس نوجوان کے پاس پہنچا اور صبح بخیر کہنے کے بعد اُس سے دریافت کیا کہ وہ کیا کررہا ہے۔ نوجوان نے قدرے توقف کے بعد نظریں اُٹھا کر دانش مند کی جانب دیکھا اور بولا ”ستارہ مچھلی (Star Fish) کو سمندر میں پھینک رہا ہوں“۔ میں سمجھا نہیں۔ تم ستارہ مچھلی کو کیوں سمندر میں پھینک رہے ہو۔ دانشور نے اُس سے پوچھا؟۔ ”سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں میں نے انہیں پانی میں نہیں پھینکا تو یہ مر جائیں گی۔ نوجوان نے جواب دیا۔لیکن نوجوان ! یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور سارے ساحل پر ستارہ مچھلیاں بکھری ہوئی ہیں۔ ممکن نہیں کہ تمہاری اس کوشش سے کوئی فرق پڑے۔ نوجوان نے شائستگی سے دانشور کی بات سنی، نیچے جھک کر ایک اور ستارہ مچھلی اُٹھائی اُسے پیچھے ہٹتی ہوئی لہروں کے اندر پورے زور سے اچھالتے ہوئے بولا۔ لیکن اس کے لئے تو فرق پڑ گیا ناں!
میں اپنے اس تازہ موضوع پر قلم اُٹھانے سے پہلے کئی روز تک یہی سوچتا رہا کہ میرے لکھنے سے کیا فرق پڑے گا۔ پہلے بھی بہت سے موضوعات پر لکھا۔ خرابیوں کی نشاندہی کی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی لیکن بے حسی کی اس کیفیت میں مجھے اس ”کہانی“ نے ایک نیا راستہ دکھایا۔ اگرچہ جس موضوع پر میں قلم اٹھانے لگا ہوں یہ یورپ یا برطانیہ کا معاملہ نہیں لیکن اس کا تعلق پاکستانی تارکین وطن سے ہے۔ جو کہ سعودی عرب میں ایک ایسی آفت سے ان دنوں دوچار ہیں جس کی وجہ سے اُن کے روزگار ہی نہیں متاثر ہو رہے بلکہ اُنہیں ڈی پورٹیشن کا بھی سامنا ہے۔ گزشتہ کئی روز سے وہ اپنے اپنے طریقے سے سوشل میڈیا پر چیخ رہے ہیں ارباب اختیار کو پکار رہے ہیں۔ سفارتخانوں سے اپیلیں کر رہے ہیں لیکن کوئی بھی اُن کی نہیں سن رہا۔مجھے 80 کی دہائی کا وہ دور یاد ہے جب اخبار میں چھپنے والی ایک چھوٹی سی خبر پر ایکشن لیا جاتا تھا۔ متعلقہ لوگوں سے باقاعدہ اعلیٰ افسران وضاحت طلب کرتے تھے اور عوامی شکایات کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں اُنہیں ناشتے کی میز پر پی آئی ڈی کی طرف سے پاکستان کے تمام اخبارات میں چھپنے والی اہم خبروں کی ایک سمری رپورٹ پیش کی جاتی تھی اور اُس بنیاد پر وہ اپنی کابینہ کے ارکان سے باز پرس کرتی تھیں۔ لیکن افسوس کہ آج کل پاکستان میں میڈیا کی ترقی کے باوجود متعلقہ ادارے یا حکام عام مسائل پر بھی توجہ نہیں دیتے بلکہ اگر ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جائے تو اُسے اپنی دشمنی پر محمول کرلیتے ہیں۔ ہاں یہ بات اور ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر بار بار کسی خبر کے دوہرانے پر صدر یا وزیراعظم کی طرف سے ”نوٹس“ لینے کی خبر آجاتی ہے لیکن یہ ”نوٹس“ بھی محض ایک خبر ہی ہوتا ہے۔ یہیحال بیرون ملک سفارتخانوں کا ہے وہ بھی اسی بے حسی کا شکار ہیں انہوں نے کبھی لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا نہیں کیں بلکہ ہٹ دھرم بیورو کریسی کی طرح اُن کی مشکلات میں اضافے کا ہی باعث بنتے ہیں۔سعودی عرب میں کم از کم 2 ملین تارکین وطن کو نہ صرف ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ اُنہیں اس ملک کو بھی چھوڑنا پڑے گا اور ان 2 ملین میں ایک بہت بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی ہے۔ گزشتہ بدھ کو سعودی عرب کی وزارت لیبر نے Nitaqat system کے تحت 250,000 چھوٹی اور درمیانی کمپنیوں کو ”ریڈ کٹیگری“ میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے ان کمپنیوں کو خبردار کیا ہے کہ کم از کم ایک سعودی باشندے کو ملازمت دینے کی شرط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے اب اُن کے ورک پرمٹس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کمپنیوں کے ملازمین کے اقاموں (Iqamas) کی بھی تجدید نہیں ہوسکے گی اور یہ لوگ سعودی عرب میں غیر قانونی امیگرینٹ کے زمرے میں آجائیں گے۔ سعودی کابینہ کے نئے پاس کردہ قانون کے مطابق اقامہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کرکے اُنہیں وزارت داخلہ ڈی پورٹ کرنے کی مجاز ہوگی۔ واضح رہے کہ سعودی حکومت نے 340,000 فرموں کو جن میں ایک بھی سعودی کام نہیں کررہا تھا اُنہیں 27 مارچ تک کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ وہ اپنی صورتحال کو درست کر لیں،سعودی حکومت نے گزشتہ چار ماہ کے دوران 200,000 غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر ملک میں رہنے پر ڈی پورٹ کیا ہے۔ پاسپورٹ حکام کے مطابق ان میں سمگل ہو کر آنے والوں کے علاوہ ایسے تارکین وطن بھی شامل ہیں جن کے رہائشی پرمٹ (اقامہ) کی کسی وجہ سے تجدید نہیں کی گئی۔ اگرچہ یہ آپریشن ایسی کمپنیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے جو کہ غیر قانونی ”کور آپ بزنس“ میں ملوث تھیں لیکن ان میں کام کرنے والے لوگوں کا اس میں کوئی قصور نہیں کہ اُنہیں ڈی پورٹ کیا جائے۔ انہیں ایسی سہولتیں دی جانی چاہئیں کہ وہ اپنا پیشہ خود ہی تبدیل کرواسکیں تاکہ کسی اور کے پاس کام کرسکیں۔ متاثرہ تارکین وطن کی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ سعودی حکومت سے اس حوالے سے بات کریں ان میں بھارت، بنگلا دیش اور پاکستان کے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو کہ اِس آپریشن کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں اور اُن کی گرفتاریوں اور ڈی پورٹیشن کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
سعودی عرب کے پاکستانی تارکین وطن کا مطالبہ ہے کہ نگراں حکومت اس سلسلے میں فوری ایکشن لے کسی حکومتی شخصیت یا سفارت کار کو سعودی حکومت سے مذاکرات کے لئے بھیجے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اقامہ قوانین کی خلاف ورزی کا ذمہ دار سعودی نظام خود ہے جس نظام کی وجہ سے غیر ملکی آزادی سے نہ تو کام کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے کاغذات بنوا سکتے ہیں کیونکہ سب کچھ سعودی کفیل کے ہاتھ میں ہوتا ہے اُن کا مطالبہ ہے کہ کسی بھی غیر ملکی کو اپنا پروفیشن خود تبدیل کروانے کی اجازت ہونی چاہئے تاکہ وہ متعلقہ ادارے میں جا کر اپنے ہنر اور تعلیم کے مطابق اپنا پروفیشن لے سکے۔ہر غیر ملکی کو اپنا کاروبار کرنے یا اپنی دکان وغیرہ کھولنے کی اجازت ہونی چاہئے اور کفیل کو کفالت وغیرہ دینے کی بجائے حکومت اپنی کوئی سالانہ فیس رکھے جس کو غیر ملکی سال کے سال ادا کرکے آزادی کے ساتھ اپنا کاروبار کرسکے۔ابھی جتنے گرفتار غیر ملکی ہیں ان کو ملک بدری کے بجائے ان کے پروفیشن اُن کے ہنر کے مطابق فیس لے کر تبدیل کئے جائیں اور اُن کو رہا کرکے کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔سعودی عرب میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت محنت مزدوری کرتی ہے۔ پہلے ہی اُن کی حالت ٹھیک نہیں ہے وہاں ایک مزدور کی اوسط تنخواہ تقریباً 800 ریال ماہانہ یاتقریباً 9600 ریال سالانہ ہے۔ اُن کے اخراجات میں اقامے کی تجدیدتقریباً 750 ریال، تامین 1500 ریال، مکتب عمل کی فیس تقریباً 2500 ریال، رہائش کا کرایہ تقریباً 3600 ریال سالانہ (300 ریال ماہانہ) اور روزانہ کھانے پینے کا خرچ تقریباً 15 ریال (450 ریال سالانہ) شامل ہے۔ یعنی دیکھا جائے تو سال بھر کا خرچ اُن کی آمدنی سے زیادہ ہے اس لئے ملازمت کے بعد وہ کچھ اور کام بھی کرلیتے ہیں جن میں قلی گیری، پورٹر، کاروں کی دھلائی، ورکشاپ میں کام، صفائی کا کام، بجلی کی مرمت وغیرہ شامل ہے۔ مقصد اُن کا صرف اتنا ہوتا ہے کہ کچھ بچت کرکے گھر والوں کو بھیج سکیں لیکن کئی مہینوں کی محنت کے بعد جب وہ کچھ پیسے بچا کر گھر والوں کو بھیجنے کے قابل ہوتے ہیں اور بنک جاتے ہیں تو آگے سے سوال ہوتا ہے کہ اتنے پیسے کہاں سے آئے۔ پوچھ گچھ ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ ”اقامہ مزدوری کا اور اتنے سارے پیسے گھر بھجواتا ہے۔بعض اوقات ایسے واقعات بھی ہوئے کہ پولیس تارکین وطن کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔ جیل میں ڈالنے کے کچھ دنوں بعد خروج لگا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
تیرے دکھ کی گہرائی تک پہنچا کون؟
تیرے درد کی پنہائی میں اُترا کون؟
تیرے نام پر اپنا حق تو لے گئے سب
تجھ کو تیرا حق دلوانے نکلا کون
(سالک صدیقی)
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=80772
 

نایاب

لائبریرین
انڈین اور فلپائنی وزراء خارجہ کی بھاگ دوڑ سے یہ مسلہ کم از کم اک سال کے لیئے موخر کر دیا گیا ہے ۔ اور اب صرف ۔ پاکستانی عمرہ زائرین یمنی ایتھوپی جو بنا اقامے کے ہیں ۔ گرفتار کر کے ڈی پورٹ کیا جائے گا ۔ اور " سائق خاص " کے اقامے کے حامل ان افراد کو گرفتار کیا جائے گا جو کہ ٹیکنیکل شعبے میں کام کر رہے ہیں ۔
پاکستانی سفارت خانہ اس مسلے میں بالکل بے بس ہے کیونکہ یہاں کی شاہرائیں پاکستانی عمرہ زائرین سے بھری پڑی ہیں ۔ اور غیر قانونی کے ساتھ ساتھ قانونی بھی گرفت میں آ رہے ہیں ۔
 
انڈین اور فلپائنی وزراء خارجہ کی بھاگ دوڑ سے یہ مسلہ کم از کم اک سال کے لیئے موخر کر دیا گیا ہے ۔ اور اب صرف ۔ پاکستانی عمرہ زائرین یمنی ایتھوپی جو بنا اقامے کے ہیں ۔ گرفتار کر کے ڈی پورٹ کیا جائے گا ۔ اور " سائق خاص " کے اقامے کے حامل ان افراد کو گرفتار کیا جائے گا جو کہ ٹیکنیکل شعبے میں کام کر رہے ہیں ۔
پاکستانی سفارت خانہ اس مسلے میں بالکل بے بس ہے کیونکہ یہاں کی شاہرائیں پاکستانی عمرہ زائرین سے بھری پڑی ہیں ۔ اور غیر قانونی کے ساتھ ساتھ قانونی بھی گرفت میں آ رہے ہیں ۔

قانونی گرفت میں نہیں آرہے بس تفتیش کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
قانونی گرفت میں نہیں آرہے بس تفتیش کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔

میرے محترم بھائی وہ " قانونی " ہے جو ایکسپائر ہوئے اقامے کے باوجود اپنے کفیل کے پاس کام کر رہا ہے ۔ گھر ورک شاپ یا ایسی دکان جو کفیل کے نام پر ہے ۔
غیر قانونی " وہ ہے جو کہ مکمل کاغذات رکھتے اپنے کفیل کے علاوہ کسی بھی دوسری جگہ کام کر رہا ہے ۔ گھر آفس ورک شاپ یا دکان ،،،،
 
میرے محترم بھائی وہ " قانونی " ہے جو ایکسپائر ہوئے اقامے کے باوجود اپنے کفیل کے پاس کام کر رہا ہے ۔ گھر ورک شاپ یا ایسی دکان جو کفیل کے نام پر ہے ۔
غیر قانونی " وہ ہے جو کہ مکمل کاغذات رکھتے اپنے کفیل کے علاوہ کسی بھی دوسری جگہ کام کر رہا ہے ۔ گھر آفس ورک شاپ یا دکان ،،،،

یار ادھر آجاؤ اور دیکھو کتنی دکانیں بھاگے ہوئے لوگوں کی وجہ سے چل رہی ہیں۔ میں کمپنی میں ہیومن ریورسز آفیسر ہوں۔ اور اب تک سینکڑوں ملازم ہماری کمپنی سے بھاگ گئے ہیں۔ اور سبھی یا تو ریاض جا رہے ہیں یا جدہ۔ جدہ اس لیے کہ وہاں پہ عمرہ ویزہ والے بہت زیادہ ہیں اور انہیں کوئی پکڑ نہیں رہا تھا۔ جیسے ہی شیعہ دہشت گردوں کو پکڑا مشن مکمل ہونے سے پہلے، تو فورا یہ کاروائی عمل میں لائی گئی۔ صرف وہ لوگ پکڑے گئے ہیں جن کے اقامہ ایکسپائر تھے ، کفیل کے شہر سے باہر کام کر رہے تھے۔ یا مہنہ (پروپیشن) کوئی اور ہے اور کام کوئی اور کر رہے ہیں۔ لیبر ( سٹیل فکسر، میسن، پینٹر، جنرل لیبر یا کارپینٹر) اس کیٹاگری میں نہیں آتی۔ مثلا ویزہ ایک گھر ڈرائیور کا ہے اور اپنی دوکان چلا رہا ہے۔ یا فارم پہ کام کرنے کا ویزہ ہے اور شہر میں کسی کمپنی یا ہوٹل پہ کام کر رہا ہے۔ اس طرح کے لوگ پکڑے جا رہے ہیں۔ ایک سال پہلے میری کمپنی سے ایک آدمی بھاگ گیا تھا۔ اور ایک سال بعد پچھلے ماہ اس نے مجھے فون کیا کہ میں کمپنی میں آنا چاہتا ہوں۔ میں نے بتایا اب تم صرف پاکستان جا سکتے ہو۔ مگر وہ آگیا اور پھر ہم نے اسے جوازات کے حوالے کر دیا۔ اس آدمی نے ایک سال میں 12 لاکھ پاکستانی روپے کی کمائی کی تھی۔ اب بتاؤ جو آدمی گورنمنٹ کے کاغذات میں صرف 800 ریال مہینہ کما رہا ہے۔ وہ 3500 ریال مہینہ کمائے تو گورنمنٹ کو کوئی نقصان نہیں ؟ اور یہ کمائی کسی طرح بھی حلال نہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
یار ادھر آجاؤ اور دیکھو کتنی دکانیں بھاگے ہوئے لوگوں کی وجہ سے چل رہی ہیں۔ میں کمپنی میں ہیومن ریورسز آفیسر ہوں۔ اور اب تک سینکڑوں ملازم ہماری کمپنی سے بھاگ گئے ہیں۔ اور سبھی یا تو ریاض جا رہے ہیں یا جدہ۔ جدہ اس لیے کہ وہاں پہ عمرہ ویزہ والے بہت زیادہ ہیں اور انہیں کوئی پکڑ نہیں رہا تھا۔ جیسے ہی شیعہ دہشت گردوں کو پکڑا مشن مکمل ہونے سے پہلے، تو فورا یہ کاروائی عمل میں لائی گئی۔ صرف وہ لوگ پکڑے گئے ہیں جن کے اقامہ ایکسپائر تھے ، کفیل کے شہر سے باہر کام کر رہے تھے۔ یا مہنہ (پروپیشن) کوئی اور ہے اور کام کوئی اور کر رہے ہیں۔ لیبر ( سٹیل فکسر، میسن، پینٹر، جنرل لیبر یا کارپینٹر) اس کیٹاگری میں نہیں آتی۔ مثلا ویزہ ایک گھر ڈرائیور کا ہے اور اپنی دوکان چلا رہا ہے۔ یا فارم پہ کام کرنے کا ویزہ ہے اور شہر میں کسی کمپنی یا ہوٹل پہ کام کر رہا ہے۔ اس طرح کے لوگ پکڑے جا رہے ہیں۔ ایک سال پہلے میری کمپنی سے ایک آدمی بھاگ گیا تھا۔ اور ایک سال بعد پچھلے ماہ اس نے مجھے فون کیا کہ میں کمپنی میں آنا چاہتا ہوں۔ میں نے بتایا اب تم صرف پاکستان جا سکتے ہو۔ مگر وہ آگیا اور پھر ہم نے اسے جوازات کے حوالے کر دیا۔ اس آدمی نے ایک سال میں 12 لاکھ پاکستانی روپے کی کمائی کی تھی۔ اب بتاؤ جو آدمی گورنمنٹ کے کاغذات میں صرف 800 ریال مہینہ کما رہا ہے۔ وہ 3500 ریال مہینہ کمائے تو گورنمنٹ کو کوئی نقصان نہیں ؟ اور یہ کمائی کسی طرح بھی حلال نہیں۔

میرے بھائی کتنا عرصہ ہوا ہے سعودیہ آئے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔؟
 

نایاب

لائبریرین
سر عرصہ کو چھوڑیں ۔ عمر گزر جاتی ہے۔ پتہ بھی نہیں چلتا۔ :cool:

میرے بھائی ۔۔۔۔۔ ۔ پھر کم از کم پانچ سال گزار لیں۔ پھر حقیقت کتنی تلخ ہے ۔ آگہی مل جائے گی ۔ اس وقت سعودی عرب میں کسی مزدور کسی آفیسر کا ماہانہ ذاتی خرچہ کتنا ہے ۔ ذرا حساب کیجئے گا اور پھر 800 ریال تنخواہ قرار دیجئے گا ۔ عمر گزار کر آگہی ملی تو کیا ملی ۔۔۔۔ عمر تو بیکار گئی میرے بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ساجد

محفلین
اب بتاؤ جو آدمی گورنمنٹ کے کاغذات میں صرف 800 ریال مہینہ کما رہا ہے۔ وہ 3500 ریال مہینہ کمائے تو گورنمنٹ کو کوئی نقصان نہیں ؟ اور یہ کمائی کسی طرح بھی حلال نہیں۔
یہ کمائی اگر حلال روزگار سے کمائی گئی ہے تو کسی طور بھی حرام نہیں۔
 

عسکری

معطل
چلو بھئی ٹل گئی بلا 3 مہینے کے لیے بادشاہ نے رکوا دیا ہے جاؤ اپنے اپنے کام پر واپس اور دعا کرو یہ 3 مہینے ضیا الحق والے 3 مہینے ہوں :grin:
آخر تحديث: السبت 25 جمادي الأول 1434ه۔ - 6 أبريل 2013م KSA 22:23 - GMT 19:23
تأجيل الحملة ضد مخالفي نظام العمل بالسعودية 3 أشهر
"الداخلية" و"العمل" نظمتا تفتيشاً لحصر فوضى رجال الأعمال​
السبت 25 جمادي الأول 1434ه۔ - 6 أبريل 2013م​
1

  • الرياض - خالد الشايع، واس -
وجه العاهل السعودي، الملك عبدالله بن عبدالعزيز، كلاً من وزارة الداخلية ووزارة العمل، بإعطاء فرصة للعاملين المخالفين لنظام العمل والإقامة في المملكة لتصحيح أوضاعهم في مدة أقصاها ثلاثة أشهر من تاريخه، ومن لم يقم بذلك يطبق بحقه النظام.
وسادت حالة من الرضا الشارع السعودي نتيجة الحملة التي تقوم بها وزارة العمل بالتعاون مع المديرية العامة للجوازات التابعة لوزارة الداخلية والهادفة لتنظيم سوق العمل في السعودية ومكافحة العمالة غير النظامية.​
وطالب خبراء ومسؤولون عبر "العربية.نت" باستمرار الحملة دون توقف، متهمين جشع القطاع بالتسبب في خلق فوضى سوق عمل لا توجد في أي مكان في العالم.​
من جهته، أكد المستشار في مكتب وزير الداخلية، الدكتور سعود المصيبيح، أن الحملة حققت الكثير من الأهداف، ويطالب باستمرارها، مشيراً إلى أنها "تأخرت حتى زادت فوضى العمالة والتستر لدرجة أنها عطلت حتى السعودة بشكل ملحوظ".​
 
میرے بھائی ۔۔۔ ۔۔ ۔ پھر کم از کم پانچ سال گزار لیں۔ پھر حقیقت کتنی تلخ ہے ۔ آگہی مل جائے گی ۔ اس وقت سعودی عرب میں کسی مزدور کسی آفیسر کا ماہانہ ذاتی خرچہ کتنا ہے ۔ ذرا حساب کیجئے گا اور پھر 800 ریال تنخواہ قرار دیجئے گا ۔ عمر گزار کر آگہی ملی تو کیا ملی ۔۔۔ ۔ عمر تو بیکار گئی میرے بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
جب ہم اپنے ملک سے یہاں آتے ہیں کیا ہمیں جاب آفر لیٹر نہیں دیا جاتا؟ جس پہ سب کچھ درج ہوتا ہے؟ کیا ہمیں اس وقت اس بات کا علم نہیں ہوتا ۔ اور دنیا کی تاریخ دیکھ لیں اور گلف کی تاریخ دیکھ لیں۔ آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ کہاں مہنگائی ہوئی اور کہاں نہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے دوسروں کو گنہگار کیوں ٹھہرائیں؟
 
میرے بھائی ۔۔۔ ۔۔ ۔ پھر کم از کم پانچ سال گزار لیں۔ پھر حقیقت کتنی تلخ ہے ۔ آگہی مل جائے گی ۔ اس وقت سعودی عرب میں کسی مزدور کسی آفیسر کا ماہانہ ذاتی خرچہ کتنا ہے ۔ ذرا حساب کیجئے گا اور پھر 800 ریال تنخواہ قرار دیجئے گا ۔ عمر گزار کر آگہی ملی تو کیا ملی ۔۔۔ ۔ عمر تو بیکار گئی میرے بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
نایاب بھائی کتنے پانچ سال اور گزاروں؟:cool:
 
میرے بھائی ۔۔۔ ۔۔ ۔ پھر کم از کم پانچ سال گزار لیں۔ پھر حقیقت کتنی تلخ ہے ۔ آگہی مل جائے گی ۔ اس وقت سعودی عرب میں کسی مزدور کسی آفیسر کا ماہانہ ذاتی خرچہ کتنا ہے ۔ ذرا حساب کیجئے گا اور پھر 800 ریال تنخواہ قرار دیجئے گا ۔ عمر گزار کر آگہی ملی تو کیا ملی ۔۔۔ ۔ عمر تو بیکار گئی میرے بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
یہ تنخواہ ایک کمپنی کے آدمی کی ہے۔ کفیل کے ویزے والے کی نہیں۔ وہ تو جہاں داؤ لگ گیا اتنا کما لیا۔
 

عسکری

معطل
جب ہم اپنے ملک سے یہاں آتے ہیں کیا ہمیں جاب آفر لیٹر نہیں دیا جاتا؟ جس پہ سب کچھ درج ہوتا ہے؟ کیا ہمیں اس وقت اس بات کا علم نہیں ہوتا ۔ اور دنیا کی تاریخ دیکھ لیں اور گلف کی تاریخ دیکھ لیں۔ آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ کہاں مہنگائی ہوئی اور کہاں نہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے دوسروں کو گنہگار کیوں ٹھہرائیں؟
بہرحال ایسا بھی نہیں ہے جناب کنٹریکٹ پر کچھ بھی لکھا ہوتا ہے آگے کیا ملتا ہے ایسے درجنوں کیسز مین دیکھ چکا اب تو 1700 والے کنٹریکٹ کو 1200 ہر جگہ بنایا جا رہا ہے یہ کہہ کر کہ تم میں وہ اہلیت نہین ہے ۔
 

ساجد

محفلین
کیا کسی ملک کے قوانین حلال حرام پہ اثر نہیں رکھتے؟ کیا یہ ملکی قوانین کی چوری نہیں؟ اور چور کا رزق کیا حلال کا ہوتا ہے؟
ملک کے قوانین سے پہلے اسلامی قانون کی بات کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کمائی حرام نہ ہو گی لیکن قانون شکنی ضرور ہو گی جو نا پسندیدہ اور قابلِ سزاعمل ہے۔
اگر یہ چوری ہے تو پھر سعودی کفیلوں کی تمام تر کمائی چوروں کی کمائی ہے کیوں کہ یہ لوگ بھاگ کر کسی نہ کسی سعودی کے پاس ہی کام کریں گے نا!!!۔ پہلے اپنے لوگوں کو سزا دیں تو پھر اجنبی خود ہی بھاگنے سے رُک جائیں گے۔
کسی وقت ہم بھی سعودیہ وارد ہوئے تھے مسجد نبوی کے قریب قیام ہوا اگلے دن کفیلِ محترم پیپر پر دستخط کروانے آئے اور ساتھ ہی ساتھ "بسُرعۃ" کی رٹ لگاتے رہے۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ میں عربی نہیں سمجھتا یا تو پیپر انگریزی میں لکھواؤ یا پھر مجھے کل تک موقع دو کہ میں کسی جاننے والے سے اس کا ترجمہ کروا سکوں۔ کفیل مذکور نے پہلے تو سخت الفاظ کی تکرار کی اور پھر بات نہ بننے میرا کالر پکڑ لیا۔ میں چونکہ کشتیاں جلا کر نہیں گیا تھا اس لئے اس کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی پوزیشن میں تھا لیکن صبر کا مظاہرہ کیا اور اس کے ساتھ آئے پاکستانی "دلال" کو کہا کہ اسے کہو اپنی عزت بچا لے ورنہ لڑائی ہو جائے گی۔ کفیل بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ رات کو میں نے اپنی نصف بہتر (جو پہلے ہی سے وہاں رہتی تھیں) سے اس پیپر کا ترجمہ کروایا تو آشکار ہوا کہ میرے ساتھ جس تنخواہ کا معاہدہ پاکستان میں کیا گیاہے اس پیپر میں مجھ سے اس کے محض ایک چوتھائی پر دستخط لینے کی کوشش کی گئی تھی۔
اگلے دن "صاحب بہادر" چمک لشک کر آئے اور دروازے پر کھڑے ہی دستخط شدہ پیپر کا مطالبہ کرنے لگے ۔ میں نے اس کے ساتھ پاکستانی کے ذریعے اسے کہا کہ دستخط تو دور کی بات وہ پیپر بھی واپس تجھے نہ دوں گا۔ وہ میرا پاسپورٹ لہراتے ہوئے بولا کہ میں ابھی جوازات جا کر تیرا خروج لگواتا ہوں میں نے کہا بسم اللہ کرو اور ساتھ ہی معاہدے کے مطابق لکھی گئی دو سال کی تنخواہ جیب میں ڈال کر اور پاکستان کا ہوائی ٹکٹ بھی لے کر وہاں جانا اور میں جب تک تمہارا کل کا پیپر لے کر مکتب العمل جاتا ہوں تا کہ تیری بد قماشی بھی ظاہر ہو ۔ کفیل پر تو گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اس کی حالت دیدنی تھی۔ قصہ مختصر کہ میں نے پوری تنخواہ والے نئے پیپر پر ہی دستخط کئے اور کفیل نے سزا کے طور پر مجھے دفتر میں چائے پیش کرنے پر رکھا لیکن اگلے دن ہی دفتر میں پھر پھڈا ہو گیا ۔ میرا مؤقف تھا کہ میں فنی ویزے پر ہوں عامل کا کام نہ کروں گا ۔ جو مہنہ لکھا ہے مجھے وہی کام کرنے کے لئے دو۔ اب مزے کی بات یہ کہ کفیل مجھے خود کہہ رہا ہے کہ تم باہر کام کر لو لیکن میں راضی نہ ہوا۔ اور میرے متعلقہ کام اس کے پاس سرے سے تھا ہی نہیں۔ کیونکہ وہ ویزے بیچ کر آنے والے غیر ملکیوں سے فراڈ کیا کرتا تھا لیکن میں اس کے گلے میں پھانس بن کر اٹک گیا تھا۔ دو مہینے مجھے فارغ بٹھا کر اسے تنخواہ دینا پڑی تو اس کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ تو خیر ہوئی کہ ایک دوسری غیر ملکی کمپنی میں میری بات ہو گئی اور میں نقل کفالت کروا کر سعودئی سے باہر بھیج دیا گیا یوں کفیل کی جان مجھ سےچھوٹ گئی ۔ بعد میں کئی برس تک اس سعودی سے میری دعا سلام رہی اور وہ مجھے دیکھتے ہی نعرہ بلند کیا کرتا تھا "کیف الحال یا خطیر"۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ یہاں سے زیور اور گھر کا اسباب بیچ کر وہاں جاتے ہیں وہ ان کے سامنے بالکل بے بس ہوتے ہیں۔ زیادتی کا آغاز ہمیشہ ان کی طرف سے ہوتا ہے جب وہ کم تنخواہ پر دستخط کرواتے ہیں یا پوری تنخواہ نہیں دیتے ۔ تبھی لوگ ان سے بھاگتے ہیں اور باہر کام کر کے روزی کماتے ہیں جو بالکل بھی حرام نہیں ہے۔
 

عسکری

معطل
اور زیادتی تب اور زیادہ ہو جاتی ہے جب مزدور جاھل بھی ہو مجبور ہونے کے ساتھ ساتھ ۔
 
بہرحال ایسا بھی نہیں ہے جناب کنٹریکٹ پر کچھ بھی لکھا ہوتا ہے آگے کیا ملتا ہے ایسے درجنوں کیسز مین دیکھ چکا اب تو 1700 والے کنٹریکٹ کو 1200 ہر جگہ بنایا جا رہا ہے یہ کہہ کر کہ تم میں وہ اہلیت نہین ہے ۔
وہ تو ایجنسی کا قصور ہوا نا۔ ہمارے پاس اگر ایسا کوئی کیس آتا ہے تو ہم اس ایجنسی سے رابطہ کرتے ہیں۔ اور پچھلے سال ہمارے پاس بھی انڈینز کا ایسا کیس آیا تھا تو اس ایجنسیز کے بقایا تمام ویزے کینسل کر دیے تھے۔ جناب اس میں ہم پاکستانی یا انڈینز ہی دھوکہ کرتے ہیں۔ ناکہ یہاں کی کمپنیز کا
 
Top