امیداورمحبت
محفلین
سعود عثمانی کی ان دنوں زیر مطالعہ کتاب "قوس' سے ایک غزل
کچھ اس طرح مری چھاؤں مرا ہنر کردے
چلوں تو ابر، رکوں تو مجھے شجر کردے
وہ غم ہے اب بھی کسی بادشاہ گر کی طرح
گدائے عشق جسے چاہے تاجور کردے
یہ ایک ہنر ازل سے ہوا کے ہاتھ میں ہے
کہ مشت خاک پہ گزرے تو مشت پر کردے
میاں! یہ عشق ہے اور آگ کی قبیل سے ہے
کسی کو خاک بنادے، کسی کو زر کردے
تری تلاش کا یہ وصف بھی کمال کا تھا
کہ گھر میں رکھ کے بھی لوگوں کو دربدر کردے
سکوتِ جاں کسی معمار کی تلاش میں ہے
یہ وقت ہے کہ مرے دشت کو نگر کر دے
شجر کی بے ثمری کب سے انتظار میں ہے
لگا، وہ زخم کہ شاخوں کو بارور کردے
بہت سے غم ترے غم سے بدلنا چاہتا ہوں
خوشا وہ درد کہ ہر درد بے اثر کردے
زمیں کے چاک پہ، میں خاک کی طرح ہوں سعود
نہ جانے کب مجھے کیا دست کوزہ گر کردے
سعود عثمانی
ُُُُ
کچھ اس طرح مری چھاؤں مرا ہنر کردے
چلوں تو ابر، رکوں تو مجھے شجر کردے
وہ غم ہے اب بھی کسی بادشاہ گر کی طرح
گدائے عشق جسے چاہے تاجور کردے
یہ ایک ہنر ازل سے ہوا کے ہاتھ میں ہے
کہ مشت خاک پہ گزرے تو مشت پر کردے
میاں! یہ عشق ہے اور آگ کی قبیل سے ہے
کسی کو خاک بنادے، کسی کو زر کردے
تری تلاش کا یہ وصف بھی کمال کا تھا
کہ گھر میں رکھ کے بھی لوگوں کو دربدر کردے
سکوتِ جاں کسی معمار کی تلاش میں ہے
یہ وقت ہے کہ مرے دشت کو نگر کر دے
شجر کی بے ثمری کب سے انتظار میں ہے
لگا، وہ زخم کہ شاخوں کو بارور کردے
بہت سے غم ترے غم سے بدلنا چاہتا ہوں
خوشا وہ درد کہ ہر درد بے اثر کردے
زمیں کے چاک پہ، میں خاک کی طرح ہوں سعود
نہ جانے کب مجھے کیا دست کوزہ گر کردے
سعود عثمانی
ُُُُ