طارق شاہ
محفلین
غزلِ
یہ حادثہ بھی تو کُچھ کم نہ تھا صبا کے لِیے
گُلوں نے کِس لِیے بوسے تِری قبا کے لِیے
وہاں زمِین پہ اُن کا قدم نہیں پڑتا
یہاں ترستے ہیں ہم لوگ نقش پا کے لِیے
تم اپنی زُلف بکھیرو، کہ آسماں کو بھی !
بہانہ چاہیے محشر کے اِلتوا کے لِیے
یہ کِس نے پیار کی شمعوں کو بَد دُعا دی ہے
اُجاڑ راہوں میں جلتی رہیں سدا کے لِیے
ابھی تو آگ سے صحرا پڑے ہیں رستے میں
یہ ٹھنڈکیں ہیں فسانے کی اِبتدا کے لِیے
سُلگ رہا ہے چمن میں بہار کا موسم
کسی حَسِین کو آواز دو خدا کے لِیے
سعید احمد اختر
https://en.wikipedia.org/wiki/Saeed_Ahmad_Akhtar