سفری ادب

راجہ صاحب

محفلین
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جس طرح ادب کی تمیز نثر اور شاعری یا قدامت اور جدت کے حوالے سے ہو سکتی ہے اُسی طرح اِسے جامد اور متحرک کے خانوں میں بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ جامد ادب سے میری مراد وہ ادب ہے جو کتابوں رسالوں یا اخبارات وغیرہ میں شائع ہو کر کتب خانوں ، گھروں یا کباڑخانوں میں پڑا ملتا ہے جبکہ متحرک ادب وہ ہے جو رکشوں ، بسوں ،ٹرکوں اور ٹرالیوں وغیرہ کی زینت ہونے کے باعث ہر پل حرکت میں رہتے ہوئے علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بنا ہوتاہے
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا چلنا مدام چلنا
جس طرح کسی گاڑی کے دوش پر سوار کتب و رسائل کو باقاعدہ گشتی کتب خانہ کہا جا سکتا ہے یا کسی بس یا ویگن میں ادویات ، طبی سازوسامان اور آلاتِ جراحی وغیرہ لاد کر آپ اُسے گشتی شفاخانہ کا نام دے دیتے ہیں اُسی طرح متحرک ادب کو گشتی ادب سے موسوم کرنے پر بھی کسی کو اعتراض تو نہیں ہونا چاہیے تا ہم ادب کا شمار چونکہ حساس معاملات میں ہوتا ہے اِس لئے خوف ِ فسادِ خلق کے پیشِ نظر ہم اِسے سفری ادب کہنے پر ہی اکتفادہ کریں گے اور ظاہر ہے اس کے مدِ مقابل کو غیر سفری ادب ہی کہا جائے گا۔
ابتدائے تخلیق ادب سے آج تک اِسکے تمام خصوصی کرم فرما یعنی ناقدین و تبصرہ نگار چونکہ سفری ادب ہی کو تختہء مشق بنائے ہوئے ہیں اس لئے میں ادب کے اس حصے کو ستم رسیدہ اور پٹا ہوا سمجھ کر مزید تبصرے یا تنقید کیلئے قابلِ معافی گردانتا ہوں اور چونکہ سفری ادب کو اِن لوگوں نے آج تک درخورِ اعتناء ہی نہیں سمجھا اِس لئے میںاِس حصے کی اشک شوئی کی ایک عاجزانہ سی کوشش کر رہا ہوں تا کہ حق بہ حق دار رسد۔
سفری ادب میں مضامین ، کہانیاں ، افسانے ، غزلیں یا نظمیں وغیرہ نہیں پائی جاتیں ۔ یہ ادب چھوٹے چھوٹے فقروں ، مصرعوں یا شعروں پر مشتمل ہوتا ہے مگر اِس سے یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ طوالت و وسعت کی بنیاد پر غیر سفری ادب کو سفری ادب پر کسی قسم کی فوقیت حاصل ہے البتہ معاملہ اِس کے برعکس ضرور ہو سکتا ہے کیونکہ
ہرچہ بقامت کہتر بقیمت بہتر
سفری ادب کے ننھے ننھے کوزوں میں مطالب و معانی کے وہ دریا سموئے ہوتے ہیں کہ غیر سفری ادب کے قلزم بھی اُنکے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں ۔ مُشتے نمونہ از خروارے کے طور پر یہاںچند مثالیں حاضرِ خدمت ہیں ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
جلنے والے کا منہ کالا
یہ وہ فقرہ ہے جو عموماً آپ کو بیس بائیس سال پرانے ماڈل کی پھٹیچر سی بس کی پُشت پر سائلنسر والی جگہ سے ذرا اوپر لکھا ملے گا ۔وہی سائلنسر جس میں سے دھوئیں کے سیاہ بادل نکل نکل کر جلنے والے کا منہ کالا کر رہے ہوتے ہیں ۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ دھوئیں کے ان بادلوں کی شانِ نزول انجن کی ناسازی طبع ہے ۔ جی نہیں ! یہ دھواں صرف اور صرف جلنے والا کا منہ کالا کرنے کے لئے نکالا جا رہا ہے ۔ اور جلنے والا کون ہے ؟ ہر وہ شخص جو بس کے پیچھے آ رہا ہے ۔ ظاہر ہے ہر پیچھے رہ جانے آگے نکل جانے والے سے جلتا ہی تو ہے ۔
 
Top