فرحت کیانی
لائبریرین
اگر تذبذب لاحق نہ ہوتا تو ہر شخص خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتا۔ بیچارگی بشریت کی پہچان ٹھہری اور بے نیازی مشیت کا خاصہ۔
پھولوں سے بھرے ہوئے باغ میں خوش رنگی بہت ہوتی ہے اور خوشبو کم کم۔
منظر کبھی ایک جگہ قیام نہیں کرتا، اس کی زندگی بس ایک جھلک تک ہے۔ اس کے بعد دوسرا منظر اس کی جگہ لے لیتا ہے اور تیسرا تعاقب میں ہوتا ہے۔ مناظر میں تسلسل ہوتا ہے تکرار نہیں ہوتی۔ ہر منظر جدید اور جدا ہوتا ہے۔ سمندر کی سطح لمح بھر کے لیے بھی یکساں نہیں رہتی۔ صحرا میں ہر روز ایک نیا ریگزار جنم لیتا ہے۔ جہاں آج پہاڑ نظر آتے ہیں وہاں کبھی سمندر ہوا کرتا تھا۔ آج جو پہاڑ میخوں کی طرح گڑے ہوئے ہیں کل وہ روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑتے پھریں گے۔
شہرت کتنی نقصان دہ ہوتی ہے کہ جس خوبی کی وجہ سے حاصل ہو اسی کے زوال کا باعث بن جاتی ہے۔
تقاضے ہار جاتے ہیں اور مطالبے جیت جاتے ہیں، حرص اور بے ذوقی جگہ جگہ یادگاریں بنا لیتی ہے۔
ہماری کتنی ہی خواہشات میں ہماری ہلاکت کا سامان ہوتا ہے اس لیے قدرت انہیں پورا نہیں کرتی اور ہم سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔
تجربے کی تلخی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے اور فاصلہ اس میں رنگ بھرتا ہے۔ پھر خودفریبی کا ایک ایسا دن بھی آتا ہے جب بیان اور تجربے میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں رہتی۔
نیا آدمی فطرت سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی تمام خوشیاں اس کی خوشبوؤں کی طرح مصنوعی ہیں۔
فرصت اور فراغت کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں۔ فرصت کا ساعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔
خاکی اور خاک کا فاصلہ جتنا کم ہو گا خودشناسی کی منزل اسی قدر نزدیک ہوگی۔
حدِ نظر ہمیشہ حدِسفر سے آگے نکل جاتی ہے۔
سفرنصیب از مختار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔
پھولوں سے بھرے ہوئے باغ میں خوش رنگی بہت ہوتی ہے اور خوشبو کم کم۔
۔۔۔۔۔۔۔
منظر کبھی ایک جگہ قیام نہیں کرتا، اس کی زندگی بس ایک جھلک تک ہے۔ اس کے بعد دوسرا منظر اس کی جگہ لے لیتا ہے اور تیسرا تعاقب میں ہوتا ہے۔ مناظر میں تسلسل ہوتا ہے تکرار نہیں ہوتی۔ ہر منظر جدید اور جدا ہوتا ہے۔ سمندر کی سطح لمح بھر کے لیے بھی یکساں نہیں رہتی۔ صحرا میں ہر روز ایک نیا ریگزار جنم لیتا ہے۔ جہاں آج پہاڑ نظر آتے ہیں وہاں کبھی سمندر ہوا کرتا تھا۔ آج جو پہاڑ میخوں کی طرح گڑے ہوئے ہیں کل وہ روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑتے پھریں گے۔
۔۔۔۔
شہرت کتنی نقصان دہ ہوتی ہے کہ جس خوبی کی وجہ سے حاصل ہو اسی کے زوال کا باعث بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔
تقاضے ہار جاتے ہیں اور مطالبے جیت جاتے ہیں، حرص اور بے ذوقی جگہ جگہ یادگاریں بنا لیتی ہے۔
۔۔۔۔
ہماری کتنی ہی خواہشات میں ہماری ہلاکت کا سامان ہوتا ہے اس لیے قدرت انہیں پورا نہیں کرتی اور ہم سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔
۔۔۔۔
تجربے کی تلخی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے اور فاصلہ اس میں رنگ بھرتا ہے۔ پھر خودفریبی کا ایک ایسا دن بھی آتا ہے جب بیان اور تجربے میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں رہتی۔
۔۔۔۔
نیا آدمی فطرت سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی تمام خوشیاں اس کی خوشبوؤں کی طرح مصنوعی ہیں۔
۔۔۔۔
فرصت اور فراغت کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں۔ فرصت کا ساعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔
۔۔۔۔
خاکی اور خاک کا فاصلہ جتنا کم ہو گا خودشناسی کی منزل اسی قدر نزدیک ہوگی۔
۔۔۔۔۔
حدِ نظر ہمیشہ حدِسفر سے آگے نکل جاتی ہے۔
۔۔۔۔
سفرنصیب از مختار مسعود