عاطف بٹ
محفلین
کئی سال بعد پبلک ٹرانسپورٹ پر لاہور سے اسلام آباد کا سفر کیا تو فراغت نے مزا دیا، لیکن بسوں میں درج جو ہدایات پڑھتے پڑھتے بچپن کی دہلیز پار کی تھی، ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی رہی۔ یہی کہ سر اور بازو باہر مت نکالیں، شیشے احتیاط سے چلائیں، تھوکنا اور فرنٹ سیٹ پہ سونا منع ہے۔ ان میں سے کچھ ہدایات کا تعلق آپ کے اپنے تحفظ اور تندرستی سے تھا جبکہ بعض مشورے خاص طور پہ اصلاح معاشرہ کی خاطر دئے جاتے۔ جیسے ایوب خان کے مارشل لا کے تحت مسافروں کے لئے حکم کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں۔ پھر سقوط ڈھاکہ کی روشنی میں دنیا کی بے ثباتی کا رنگ کہ بس کا مالک میں نہیں:مالک خدا ہے۔ ہوتے ہوتے جنرل ضیا الحق کے عہد میں عبادت اور اسپیڈ لمٹ پہ یکساں زور دینے والے یہ باہم چپکے ہوئے جملے ’مسلمانو، نماز قائم کرو۔ رفتار چالیس میل فی گھنٹہ۔‘
کرشن چندر اور قدرت اللہ شہاب کی تحریروں میں دلچسپی رکھنے والے پرانے زمانے میں سیالکوٹ اور جموں کو ملانے والی نندہ بس سروس کے نام سے واقف ہوں گے، جسے پاکستان بنتے ہی مشرف بہ اسلام کرکے ڈسٹرکٹ ٹرانسپورٹ کمپنی بنا دیا گیا تھا ۔ اس نکتہ پر تو اجماع امت ہے کہ آزادی کے کئی سال گزر جانے پہ بھی لوگ بسوں کو لاری ہی کہتے۔ البتہ لسانی تبدیلی کا عمل تیز ہوا تو بیرونی انجن یا منہ والی گاڑیاں راکٹ اور اندرونی انجن والی پھینی بسیں ڈبہ کہلانے لگی تھیں۔ ہاں، اس ٹکنیکل موضوع پر روایات میں اختلاف ہے کہ آیا بس کی باڈی لکڑی کی بنی ہوتی تھی یا کسی لوہے جیسی دھات کی۔ گاڑی کے جسم و جاں سے اٹھنے والی ہر آواز کا ٹھیک اندازہ تو پنڈت روی شنکر جیسا کوئی ماہر موسیقی ہی کر سکتا ہے جنہوں نے مغربی میوزک میں ستار کا پیوند لگایا اور فن کی دنیا میں امر ہو گئے۔
میرا مقصد آج کی پریمیم پلس کوچ کا موازنہ پچھلے دور کی ان ڈرئیں ڈرئیں بسوں سے کرنا نہیں جن کے بچے کھچے ایک نمونے پر نئی صدی چڑھنے سے ذرا پہلے اس بندہ ءناچیز نے نارنگ منڈی سے ظفر وال جاتے ہوئے انسان اور بکری کو ایک گھاٹ سفر کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس مسافت میں سوچنے سمجھنے والے انسان کو ریسرچ کا یہ نیا موضوع بھی سوجھا کہ ہماری منزل اگر مشرقی سمت میں تھی تو پھر اندرونی زلزلہ کے جھٹکوں کا رخ جنوب سے شمال کی طرف کیوں تھا۔ خیریت ہوئی کہ ہم سفر بکریاں کوئی خلاف تہذیب حرکت کئے بغیر مسلسل سبز چارہ کھاتی رہیں ۔ یوں میرے تخیل میں اس فلم کی ریل بھی نہ ٹوٹنے پائی جس میں گاندھی جی مسلسل اپنی پالتو بکری کا دودھ پی رہے تھے ۔ یہ خیال ضرور آتا رہا کہ کیلے اور سیب کھانے والی اس بکری کا دودھ نیسلے کے ڈبہ کا سا ہو گا یا ملک شیک جیسا ۔
انسان اور جانور کی انسیت ایک دلچسپ موضوع سہی ، مگر قدیم دور کے قافلوں سے لے کر نو آزاد پاکستان کی بسوں اور لاریوں تک انسانوں کی ایک دوسرے سے یکجائی کے انداز بھی نرالے تھے ۔ ’بھائی جی ، ذرا میری جگہ کا خیال رکھئے‘ ۔ ساتھ والے مسافر نے اتنا کہا اور لمبی تکان کو دور کرنے کے لئے رومال سیٹ پہ چھوڑ کر چائے پینے اتر گیا ۔ کسی اور سواری کی آواز آتی ’پاکستاں تائمز لے کر ذرا نوائے وقت مجھے دے دیجئے ‘ ۔ زیادہ بے تکلفی کی راہیں تو پشاور سے 36 گھنٹوں میں کراچی پہنچنے والی آدم بو ٹرینوں میں کھلتیں کہ لاہور سے پانی کے گلاس اور ناشتہ دان سے نکلنے والا شراکت داری کا جذبہ ملتان پہنچتے پہنچتے اس جیون سمبندھ میں بدلنے لگتا،جس کا اشارہ سید ضمیر جعفری یہ کہہ کر دے گئے ہیں :
’نجی سیکٹر‘ سے بعض لوگ کوئی مانگی ہوئی کار لیں گے جس کا پٹرول پورا کرنے کے لئے مَیں نے دو ایک چھانگے قسم کے دوست ساتھ ملا لئے ۔ قارئین کرام ، مانگے تانگے کی موٹر کاروں پہ مہم جوئی کسی اور کالم کا موضوع بنے گی ۔ اس وقت تو والدین سے ہمیشہ کے لئے چھپا لیا گیا یہ راز کھولنا چاہتا ہوں کہ جی ٹی روڈ سے 300 کلومیٹر کی یہ مسافت موٹر سائیکل نمبر ایل ای ایس7103 پہ طے کی گئی ۔ یہ موٹر سائیکل فوج سے آدھی قیمت پہ خریدا گیا ٹرائمف یا بی ایس اے کا اڑھائی تین ہارس پاور والا بمبو کاٹ نہیں تھا، جس پہ بیٹھتے ہی گورنمنٹ کالج لاہور کا لیکچرار موت کے کنویں والا ’سینڈو‘ دکھائی دینے لگتا ہے اور پچھلی سیٹ کی سواری موٹر سائیکل سے اتر کر بھی پندرہ منٹ تک اوپر نیچے ہلتی رہتی ہے ۔ ان بیگمات اودھ کے مقابلہ میں ہماری گڑیا جاپانی تو سو سی سی کی نازک اندام سی سوزوکی تھی۔
خدا جانتا ہے کہ نئی نویلی موٹر بائیک کے ساتھ یہ حرکت نہ تو ایڈونچر سمجھ کر کی گئی ، نہ کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ کل کلاں یہ بے ضرر سا واقعہ اخباری تحریر کا موضوع بن جائے گا ۔ تعطیلات گرما کے سبب تدریسی سرگرمیاں ختم ہونے لگیں تو مسئلہ یہ تھا کہ اس موٹر سائیکل کا کیا کریں ،جو اے جی آفس سے سات ماہ کی تاخیر سے یک مشت تنخواہ ملنے کا انعام ہے ۔ باعزت طریقہ تو یہ تھا کہ صاحب لوگ کی طرح اسے ٹرین کی بریک یعنی مال بردار حصہ میں رکھ کر لے جائیں ۔ لیکن ریلوے کے حفاظتی ضابطوں کے تحت موٹر سائیکل لدوانے سے پہلے اس کے پٹرول کا آخری قطرہ تک نکال لینا ضروری ہوتا ہے ، اگلا مرحلہ یہ کہ راولپنڈی سے آگے ٹیکسلا جنکشن پہ اتر کر واہ والے گھر تک پہنچنے کے لئے کہیں سے دوبارہ پٹرول ڈلوایا جائے جبکہ راستہ میں بڑی سڑک پہ پٹرول پمپ تھا ہی نہیں۔
سفر کا آغاز لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی کے ممتاز ہال سے ہوا اور چونکہ وسط جون کی گرمیاں تھیں ، اس لئے فائنل ایئر کے طالب علم اور بے تکلف دوست شوکت ضیا نے مشورہ دیا کہ صبح ساڑھے چار نکل کھڑے ہوں گے ۔ رات بھر مظہر الاسلام اور امتیاز گوندل کے ساتھ گپیں ہانکنے کے بعد علی الصبح ایک لمبے سفر کے لئے موٹر سائیکل کو کک مار دینا بظاہر کوئی دانشمندانہ کارروائی نہیں تھی ۔ اوپر سے شریک سفر بننے کے لئے شوکت کی یہ شرط کہ ان کا بستر بند ہماری بائیک کے کیرئیر پہ تیسری سواری کے طور پر جلوہ افروز رہے گا ۔ آج کی نو دولتیا کاروں والے شائد اسے بڑی کامیابی نہ سمجھیں ، لیکن لاہور سے روانگی کے سوا دو گھنٹے کے اندر دونوں خوش و خرم نوجوان وزیر آباد میں حلوہ پوری اور لسی کا ناشتہ کر رہے تھے ۔
اگلی کہانی کوئی خاص دردناک نہیں ۔ بس لالہ موسیٰ سے ذرا آگے جا کر موٹر سائیکل بند ہو گئی، چونکہ انجینئرنگ کا طالب علم ہونے کے ناتے سے شوکت ضیا نے مجھ سے کئی گنا سائنس پڑھ رکھی تھی ، اس لئے سمجھ گئے کہ موبل آئل پمپ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ دیسی مسائل کا حل بھی دیسی نوعیت کا ہوتا ہے ، سو تھوڑا سا موبل آئل براہ راست پٹرول کی ٹنکی میں ڈالا اور چلنے سے پہلے اسے یوں ہلایا جیسے ہاسٹل کے لڑکے اپنی شاموں کو خنک بنانے کے لئے دودھ میں سیون اپ ملا لیا کرتے ہیں ۔ کھاریاں کینٹ پہنچ کر ایک انقلابی اسٹاپ اوور کا فیصلہ کیا گیا اور اپنے انٹرمیڈیٹ کے استاد اور بعد ازاں فیڈرل گورنمنٹ کالج کوئٹہ کے پرنسپل ، پروفیسر اجمل صدیقی کی میزبانی سے فیض یاب ہو ئے ۔ دوپہر کو طویل آرام کی وجہ سے ٹائم ٹیبل تو آگے پیچھے ہو گیا تھا، مگر عزم میں کوئی کمی نہ آئی ۔
اے پی پی کے پنڈی مال والے دفتر میں زمان ملک سے چائے پی کر جب شوکت ضیا کو انوار چوک واہ میں اتارا تو لاہور سے ہماری روانگی کو پورے 17گھنٹے ہو چکے تھے ۔ ماں نے پوچھا تو کہہ دیا کہ موٹر سائیکل ٹرین پہ لاد کر لایا ہوں، حالانکہ گرد میں بری طرح اٹی ہوئی میری پتلون قمیض اس دعوے کی نفی کر رہی تھی ۔ اب آپ پوچھیں گے کہ تم نے اس سفر میں کیا کھویا ، کیا پایا ۔ کھویا تو پچھلی جیب میں سنبھالا ہوا ایک چھوٹا سا تمباکو پینے کا پائپ جو ایک دوست کا بھائی کینیڈا سے لے کر آیا تھا ۔ سیکھا تو زندگی بھر کے لئے یہ سبق سیکھا کہ سواری اپنی ہو یا پبلک ٹرانسپورٹ کی ، رونقیں گاڑیوں کی بدولت نہیں، بلکہ انسانوں کے دم سے ہوتی ہیں ۔ اگر آپ کو شوکت ضیا کا ساتھ میسر ہو اور پڑاؤ کرنا ہو اجمل صدیقی اور زمان ملک کے یہاں تو کیوں نہ ہم آپ مل کر آتش کی غزل گائیں :
کرشن چندر اور قدرت اللہ شہاب کی تحریروں میں دلچسپی رکھنے والے پرانے زمانے میں سیالکوٹ اور جموں کو ملانے والی نندہ بس سروس کے نام سے واقف ہوں گے، جسے پاکستان بنتے ہی مشرف بہ اسلام کرکے ڈسٹرکٹ ٹرانسپورٹ کمپنی بنا دیا گیا تھا ۔ اس نکتہ پر تو اجماع امت ہے کہ آزادی کے کئی سال گزر جانے پہ بھی لوگ بسوں کو لاری ہی کہتے۔ البتہ لسانی تبدیلی کا عمل تیز ہوا تو بیرونی انجن یا منہ والی گاڑیاں راکٹ اور اندرونی انجن والی پھینی بسیں ڈبہ کہلانے لگی تھیں۔ ہاں، اس ٹکنیکل موضوع پر روایات میں اختلاف ہے کہ آیا بس کی باڈی لکڑی کی بنی ہوتی تھی یا کسی لوہے جیسی دھات کی۔ گاڑی کے جسم و جاں سے اٹھنے والی ہر آواز کا ٹھیک اندازہ تو پنڈت روی شنکر جیسا کوئی ماہر موسیقی ہی کر سکتا ہے جنہوں نے مغربی میوزک میں ستار کا پیوند لگایا اور فن کی دنیا میں امر ہو گئے۔
میرا مقصد آج کی پریمیم پلس کوچ کا موازنہ پچھلے دور کی ان ڈرئیں ڈرئیں بسوں سے کرنا نہیں جن کے بچے کھچے ایک نمونے پر نئی صدی چڑھنے سے ذرا پہلے اس بندہ ءناچیز نے نارنگ منڈی سے ظفر وال جاتے ہوئے انسان اور بکری کو ایک گھاٹ سفر کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس مسافت میں سوچنے سمجھنے والے انسان کو ریسرچ کا یہ نیا موضوع بھی سوجھا کہ ہماری منزل اگر مشرقی سمت میں تھی تو پھر اندرونی زلزلہ کے جھٹکوں کا رخ جنوب سے شمال کی طرف کیوں تھا۔ خیریت ہوئی کہ ہم سفر بکریاں کوئی خلاف تہذیب حرکت کئے بغیر مسلسل سبز چارہ کھاتی رہیں ۔ یوں میرے تخیل میں اس فلم کی ریل بھی نہ ٹوٹنے پائی جس میں گاندھی جی مسلسل اپنی پالتو بکری کا دودھ پی رہے تھے ۔ یہ خیال ضرور آتا رہا کہ کیلے اور سیب کھانے والی اس بکری کا دودھ نیسلے کے ڈبہ کا سا ہو گا یا ملک شیک جیسا ۔
انسان اور جانور کی انسیت ایک دلچسپ موضوع سہی ، مگر قدیم دور کے قافلوں سے لے کر نو آزاد پاکستان کی بسوں اور لاریوں تک انسانوں کی ایک دوسرے سے یکجائی کے انداز بھی نرالے تھے ۔ ’بھائی جی ، ذرا میری جگہ کا خیال رکھئے‘ ۔ ساتھ والے مسافر نے اتنا کہا اور لمبی تکان کو دور کرنے کے لئے رومال سیٹ پہ چھوڑ کر چائے پینے اتر گیا ۔ کسی اور سواری کی آواز آتی ’پاکستاں تائمز لے کر ذرا نوائے وقت مجھے دے دیجئے ‘ ۔ زیادہ بے تکلفی کی راہیں تو پشاور سے 36 گھنٹوں میں کراچی پہنچنے والی آدم بو ٹرینوں میں کھلتیں کہ لاہور سے پانی کے گلاس اور ناشتہ دان سے نکلنے والا شراکت داری کا جذبہ ملتان پہنچتے پہنچتے اس جیون سمبندھ میں بدلنے لگتا،جس کا اشارہ سید ضمیر جعفری یہ کہہ کر دے گئے ہیں :
کسی نے یوں گھریلو گفتگو پر زور ڈالا ہے
کہ جیسے اگلے اسٹیشن پہ رشتہ ہونے والا ہے
’بڑے لونڈے کو مولا بخش جی کتنا پڑھاؤ گے‘
’اسے بی اے پہ روکو گے کہ ایل ایل بی کراؤ گے‘
پبلک ٹرانسپورٹ کے مقابلہ میں ذاتی کار کو بہتر سمجھنا، فلم دیکھنے کے لئے سنیما ہال کی بجائے گیلری کو چننا، لنچ یا ڈنر کے بہانے پاک ٹی ہاؤس کی جگہ ہفتہ بھر کی حق حلال کی کمائی پولو لاؤنج میں لٹا دینا ۔ کیا اس کے پیچھے اپنی انفرادیت کو اجاگر کرنے کا جذبہ ہے یا یہ خواہش کہ جسمانی عیش و آرام میں اضافہ محسوس ہو ۔ اب یاد کروں تو میرا لاہور سے راولپنڈی بلکہ بیس میل آگے تک ’نجی سیکٹر‘ کا پہلا آزاد سفر شیر شاہ سوری والی سڑک پہ ایک من مانی کے اظہار کے لئے تھا ۔ وہ یہ کہ ہمارا طالب علمی کا دور گزر چکا ، اب چونکہ عام معنوں میں اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو چکے ہیں ، اس لئے ایک سے دوسرے شہر جانے کے لئے پاکستان ریلوے کی ریل کاروں کا سہارا کیوں لیا جائے اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کے ٹائم ٹیبل ، مقررہ اسٹاپوں اور کرایہ نامہ کی پابندی کس لئے ہو ۔ کہ جیسے اگلے اسٹیشن پہ رشتہ ہونے والا ہے
’بڑے لونڈے کو مولا بخش جی کتنا پڑھاؤ گے‘
’اسے بی اے پہ روکو گے کہ ایل ایل بی کراؤ گے‘
’نجی سیکٹر‘ سے بعض لوگ کوئی مانگی ہوئی کار لیں گے جس کا پٹرول پورا کرنے کے لئے مَیں نے دو ایک چھانگے قسم کے دوست ساتھ ملا لئے ۔ قارئین کرام ، مانگے تانگے کی موٹر کاروں پہ مہم جوئی کسی اور کالم کا موضوع بنے گی ۔ اس وقت تو والدین سے ہمیشہ کے لئے چھپا لیا گیا یہ راز کھولنا چاہتا ہوں کہ جی ٹی روڈ سے 300 کلومیٹر کی یہ مسافت موٹر سائیکل نمبر ایل ای ایس7103 پہ طے کی گئی ۔ یہ موٹر سائیکل فوج سے آدھی قیمت پہ خریدا گیا ٹرائمف یا بی ایس اے کا اڑھائی تین ہارس پاور والا بمبو کاٹ نہیں تھا، جس پہ بیٹھتے ہی گورنمنٹ کالج لاہور کا لیکچرار موت کے کنویں والا ’سینڈو‘ دکھائی دینے لگتا ہے اور پچھلی سیٹ کی سواری موٹر سائیکل سے اتر کر بھی پندرہ منٹ تک اوپر نیچے ہلتی رہتی ہے ۔ ان بیگمات اودھ کے مقابلہ میں ہماری گڑیا جاپانی تو سو سی سی کی نازک اندام سی سوزوکی تھی۔
خدا جانتا ہے کہ نئی نویلی موٹر بائیک کے ساتھ یہ حرکت نہ تو ایڈونچر سمجھ کر کی گئی ، نہ کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ کل کلاں یہ بے ضرر سا واقعہ اخباری تحریر کا موضوع بن جائے گا ۔ تعطیلات گرما کے سبب تدریسی سرگرمیاں ختم ہونے لگیں تو مسئلہ یہ تھا کہ اس موٹر سائیکل کا کیا کریں ،جو اے جی آفس سے سات ماہ کی تاخیر سے یک مشت تنخواہ ملنے کا انعام ہے ۔ باعزت طریقہ تو یہ تھا کہ صاحب لوگ کی طرح اسے ٹرین کی بریک یعنی مال بردار حصہ میں رکھ کر لے جائیں ۔ لیکن ریلوے کے حفاظتی ضابطوں کے تحت موٹر سائیکل لدوانے سے پہلے اس کے پٹرول کا آخری قطرہ تک نکال لینا ضروری ہوتا ہے ، اگلا مرحلہ یہ کہ راولپنڈی سے آگے ٹیکسلا جنکشن پہ اتر کر واہ والے گھر تک پہنچنے کے لئے کہیں سے دوبارہ پٹرول ڈلوایا جائے جبکہ راستہ میں بڑی سڑک پہ پٹرول پمپ تھا ہی نہیں۔
سفر کا آغاز لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی کے ممتاز ہال سے ہوا اور چونکہ وسط جون کی گرمیاں تھیں ، اس لئے فائنل ایئر کے طالب علم اور بے تکلف دوست شوکت ضیا نے مشورہ دیا کہ صبح ساڑھے چار نکل کھڑے ہوں گے ۔ رات بھر مظہر الاسلام اور امتیاز گوندل کے ساتھ گپیں ہانکنے کے بعد علی الصبح ایک لمبے سفر کے لئے موٹر سائیکل کو کک مار دینا بظاہر کوئی دانشمندانہ کارروائی نہیں تھی ۔ اوپر سے شریک سفر بننے کے لئے شوکت کی یہ شرط کہ ان کا بستر بند ہماری بائیک کے کیرئیر پہ تیسری سواری کے طور پر جلوہ افروز رہے گا ۔ آج کی نو دولتیا کاروں والے شائد اسے بڑی کامیابی نہ سمجھیں ، لیکن لاہور سے روانگی کے سوا دو گھنٹے کے اندر دونوں خوش و خرم نوجوان وزیر آباد میں حلوہ پوری اور لسی کا ناشتہ کر رہے تھے ۔
اگلی کہانی کوئی خاص دردناک نہیں ۔ بس لالہ موسیٰ سے ذرا آگے جا کر موٹر سائیکل بند ہو گئی، چونکہ انجینئرنگ کا طالب علم ہونے کے ناتے سے شوکت ضیا نے مجھ سے کئی گنا سائنس پڑھ رکھی تھی ، اس لئے سمجھ گئے کہ موبل آئل پمپ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ دیسی مسائل کا حل بھی دیسی نوعیت کا ہوتا ہے ، سو تھوڑا سا موبل آئل براہ راست پٹرول کی ٹنکی میں ڈالا اور چلنے سے پہلے اسے یوں ہلایا جیسے ہاسٹل کے لڑکے اپنی شاموں کو خنک بنانے کے لئے دودھ میں سیون اپ ملا لیا کرتے ہیں ۔ کھاریاں کینٹ پہنچ کر ایک انقلابی اسٹاپ اوور کا فیصلہ کیا گیا اور اپنے انٹرمیڈیٹ کے استاد اور بعد ازاں فیڈرل گورنمنٹ کالج کوئٹہ کے پرنسپل ، پروفیسر اجمل صدیقی کی میزبانی سے فیض یاب ہو ئے ۔ دوپہر کو طویل آرام کی وجہ سے ٹائم ٹیبل تو آگے پیچھے ہو گیا تھا، مگر عزم میں کوئی کمی نہ آئی ۔
اے پی پی کے پنڈی مال والے دفتر میں زمان ملک سے چائے پی کر جب شوکت ضیا کو انوار چوک واہ میں اتارا تو لاہور سے ہماری روانگی کو پورے 17گھنٹے ہو چکے تھے ۔ ماں نے پوچھا تو کہہ دیا کہ موٹر سائیکل ٹرین پہ لاد کر لایا ہوں، حالانکہ گرد میں بری طرح اٹی ہوئی میری پتلون قمیض اس دعوے کی نفی کر رہی تھی ۔ اب آپ پوچھیں گے کہ تم نے اس سفر میں کیا کھویا ، کیا پایا ۔ کھویا تو پچھلی جیب میں سنبھالا ہوا ایک چھوٹا سا تمباکو پینے کا پائپ جو ایک دوست کا بھائی کینیڈا سے لے کر آیا تھا ۔ سیکھا تو زندگی بھر کے لئے یہ سبق سیکھا کہ سواری اپنی ہو یا پبلک ٹرانسپورٹ کی ، رونقیں گاڑیوں کی بدولت نہیں، بلکہ انسانوں کے دم سے ہوتی ہیں ۔ اگر آپ کو شوکت ضیا کا ساتھ میسر ہو اور پڑاؤ کرنا ہو اجمل صدیقی اور زمان ملک کے یہاں تو کیوں نہ ہم آپ مل کر آتش کی غزل گائیں :
سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے