محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
کراچی میں اسی ہفتے اختتام پذیر ہونے والے ساتویں کتب میلے میں آخری دن ہم نے ترکی سے متعلق دو کتابیں خریدیں ایک کا نام ‘‘ حجاز ریلوے ، عثمانی ترک اور شریفِ مکہ‘‘ ہے جو محترم نسیم احمد صاحب کی لکھی ہوئی ہے، جسے الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب نے چھاپا اور دوسری کتاب ‘‘ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی لکھی ہوئی ‘‘ جدید ترکی ہے جسے قرطاس پرنٹر ز نے چھاپا۔ یوں تو دونوں ہی کتب لاجواب ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس وقت ہم ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی اس کتاب سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جو واقعتاً سوچ کی گہرائیوں میں اتر کر انہیں جھنجھوڑنے والا ہے۔اسی باب کو بعد میں ایک کتابچے کی شکل میں بھی چھاپا گیا ہے جس کا نام اس اقتباس کا نام ہے یعنی،
’’ سقوطِ خلافت اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘
’’ سقوطِ خلافت اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘
الغائے خلافت
۳ مارچ ۱۹۲۴ کا دن امتِ مسلمہ کے لیے کسی المیے سے کم نہیں تھاکہ اس دن تیرہ سو اکتیس سال سے قائم خلافت کا خاتمہ کیا گیا۔ مزید افسوس کا مقام یہ ہے کہ الغائے خلافت پر تین چوتھائی صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ، اور اس حقیقت کے باوجود کہ خلافت امورِ عامہ میں سے ہے ، شارع نے اس کیے انعقاد کی ذمہ داری امتِ مسلمہ پر عائد کی ہے ، ادارہ خلافت کے قیام کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی۔ درآں حالیکہ بعض مفکرین کے مطابق‘‘ انتخابِ خلیفہ’’ امتِ محمدی پر فرضِ کفایہ کے طور پر لازمی ہے۔ اگر اس فریضہ کو انجام نہ دیا گیا تو تمام امت اس کی ذمہ دار ہوگی۔ اور اس کے لیے قابلِ مواخذہ ہوگی۔ اور اگر امتِ مسلمہ میں کسی بھی جگہ کے اربابِ حل و عقد ( اہل الاختیار) نے اسے منعقد کردیا تو ساری امت کے سر سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا۔
تشریحِ خلافت
خلافت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی نیابت اور قائم مقامی کے ہیں۔ یہ لفظ مختلف اشتقاقی صورتوں میں قرآنِ مجید میں کئی بار آیا ہے، اور ہر بار کم و بیش اسی معنی میں آیا ہے۔ ( یعنی جانشین ہونا) لفظ خلیفہ قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے۔
۱۔ ایک سورۃ بقرہ آیت نمبر تیس میں‘‘ و اذقال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفہ’’ یعنی اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔
۲۔ یا داؤد انا جعلناک خلیفہ فی الارض’’ ۔۔۔الخ( سورۃ ص آیت نمبر ۲۶ ) ترجمہ: اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے تم لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی خواہش کی پیروی نہ کرو، یہ تم کو اللہ کی راہ سے گمراہ کردے گی بلاشبہہ وہ لوگ جو اللہ کی راہ سے گمراہ ہوجاتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہےکیونکہ یہ لوگ حساب کے دن کو بھلا بیٹھے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں خلافت اس ادارے کو کہتے ہیں جو امتِ مسلمہ کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہو اور خلیفہ اس ادارے کا سربراہ ہوتا ہے۔ جو اس سربراہی میں رسول اللہ ﷺ کا نائب اور جانشین ہوتا ہے۔ لہٰذا اس ادارے کی ابتدا رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ہوئی۔
یہاں اس غلط فہمی کا تدارک بھی ضروری ہے جو عموماً لوگوں میں ناواقفیت کی بنا پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایک عام شخص سمجھتا ہے کہ خلافت کوئی دینی ادارہ ہے اور خلیفہ کی محض ایک مذہبی حیثیت ہوتی ہے، جس کاکام چند مذہبی رسوم کی ادائیگی سے زیادہ کچھ نہیں۔
حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ شارع کا فیصلہ ہے کہ خلافت دینی اور دنیاوی دونوں امور پر محیط ہو ۔ اسلام انسان کی روحانی راہنمائی کے ساتھ ساتھ اس کی مادی معاملات میں بھی مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اور مذہب اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے کے بجائے زندگی کے ہمہ گیر ضابطہ حیات کے لیے ‘‘دین’’ کی جامع اصطلاح استعمال کرتا ہے اس لیے خلافت کا منصب بھی زندگی کے تمام امور پر محیط ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ رسول تھےاور اس اعتبار سے ان کاکام منصبِ نبوت کی ذمہ داریاں سنبھالنا اور دینِ حق کی اشاعت میں کما حقہ سعی کرنا تھا۔ جبکہ ان کی دوسری حیثیت ملتِ اسلامیہ کے قائد اور راہنما کی تھی۔ لہٰذا اس اعتبار سے ان کاکام وہی تھا جو کسی سربراہَ ملک کا ہوسکتا ہےلہٰذا رسول اللہ ﷺ کے بعد ان کے خلفائے راشدین امت کے دینی اور روحانی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ امورِ حکمرانی و جہانبانی میں بھی امت کے قائد اور امام تھے۔
ایک اور لائقِ توجہ بات یہ ہے کہ اسلامی ماخذ میں خلافت کے ساتھ ساتھ امامت کا لفظ بھی متداول اور مروج ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے خلیفہ ، امام ، امیر ، ( امیر المئومنین یا امیر المسلمین) اور اولی الامر وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس اعتبار سے خلیفہ اور امیر ، نیز خلافت اور امامت مترادف الفاظ ہیں۔