سقوطَ خلافت اور امتَ مسلمہ کی ذمہ داری

کراچی میں اسی ہفتے اختتام پذیر ہونے والے ساتویں کتب میلے میں آخری دن ہم نے ترکی سے متعلق دو کتابیں خریدیں ایک کا نام ‘‘ حجاز ریلوے ، عثمانی ترک اور شریفِ مکہ‘‘ ہے جو محترم نسیم احمد صاحب کی لکھی ہوئی ہے، جسے الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب نے چھاپا اور دوسری کتاب ‘‘ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی لکھی ہوئی ‘‘ جدید ترکی ہے جسے قرطاس پرنٹر ز نے چھاپا۔ یوں تو دونوں ہی کتب لاجواب ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس وقت ہم ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی اس کتاب سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جو واقعتاً سوچ کی گہرائیوں میں اتر کر انہیں جھنجھوڑنے والا ہے۔اسی باب کو بعد میں ایک کتابچے کی شکل میں بھی چھاپا گیا ہے جس کا نام اس اقتباس کا نام ہے یعنی،

’’ سقوطِ خلافت اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘
الغائے خلافت​
۳ مارچ ۱۹۲۴ کا دن امتِ مسلمہ کے لیے کسی المیے سے کم نہیں تھاکہ اس دن تیرہ سو اکتیس سال سے قائم خلافت کا خاتمہ کیا گیا۔ مزید افسوس کا مقام یہ ہے کہ الغائے خلافت پر تین چوتھائی صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ، اور اس حقیقت کے باوجود کہ خلافت امورِ عامہ میں سے ہے ، شارع نے اس کیے انعقاد کی ذمہ داری امتِ مسلمہ پر عائد کی ہے ، ادارہ خلافت کے قیام کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی۔ درآں حالیکہ بعض مفکرین کے مطابق‘‘ انتخابِ خلیفہ’’ امتِ محمدی پر فرضِ کفایہ کے طور پر لازمی ہے۔ اگر اس فریضہ کو انجام نہ دیا گیا تو تمام امت اس کی ذمہ دار ہوگی۔ اور اس کے لیے قابلِ مواخذہ ہوگی۔ اور اگر امتِ مسلمہ میں کسی بھی جگہ کے اربابِ حل و عقد ( اہل الاختیار) نے اسے منعقد کردیا تو ساری امت کے سر سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا۔​
تشریحِ خلافت​
خلافت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی نیابت اور قائم مقامی کے ہیں۔ یہ لفظ مختلف اشتقاقی صورتوں میں قرآنِ مجید میں کئی بار آیا ہے، اور ہر بار کم و بیش اسی معنی میں آیا ہے۔ ( یعنی جانشین ہونا) لفظ خلیفہ قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے۔​
۱۔ ایک سورۃ بقرہ آیت نمبر تیس میں‘‘ و اذقال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفہ’’ یعنی اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔​
۲۔ یا داؤد انا جعلناک خلیفہ فی الارض’’ ۔۔۔الخ( سورۃ ص آیت نمبر ۲۶ ) ترجمہ: اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے تم لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی خواہش کی پیروی نہ کرو، یہ تم کو اللہ کی راہ سے گمراہ کردے گی بلاشبہہ وہ لوگ جو اللہ کی راہ سے گمراہ ہوجاتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہےکیونکہ یہ لوگ حساب کے دن کو بھلا بیٹھے ہیں۔​
اسلامی تاریخ میں خلافت اس ادارے کو کہتے ہیں جو امتِ مسلمہ کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہو اور خلیفہ اس ادارے کا سربراہ ہوتا ہے۔ جو اس سربراہی میں رسول اللہ ﷺ کا نائب اور جانشین ہوتا ہے۔ لہٰذا اس ادارے کی ابتدا رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ہوئی۔​
یہاں اس غلط فہمی کا تدارک بھی ضروری ہے جو عموماً لوگوں میں ناواقفیت کی بنا پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایک عام شخص سمجھتا ہے کہ خلافت کوئی دینی ادارہ ہے اور خلیفہ کی محض ایک مذہبی حیثیت ہوتی ہے، جس کاکام چند مذہبی رسوم کی ادائیگی سے زیادہ کچھ نہیں۔​
حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ شارع کا فیصلہ ہے کہ خلافت دینی اور دنیاوی دونوں امور پر محیط ہو ۔ اسلام انسان کی روحانی راہنمائی کے ساتھ ساتھ اس کی مادی معاملات میں بھی مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اور مذہب اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے کے بجائے زندگی کے ہمہ گیر ضابطہ حیات کے لیے ‘‘دین’’ کی جامع اصطلاح استعمال کرتا ہے اس لیے خلافت کا منصب بھی زندگی کے تمام امور پر محیط ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ رسول تھےاور اس اعتبار سے ان کاکام منصبِ نبوت کی ذمہ داریاں سنبھالنا اور دینِ حق کی اشاعت میں کما حقہ سعی کرنا تھا۔ جبکہ ان کی دوسری حیثیت ملتِ اسلامیہ کے قائد اور راہنما کی تھی۔ لہٰذا اس اعتبار سے ان کاکام وہی تھا جو کسی سربراہَ ملک کا ہوسکتا ہےلہٰذا رسول اللہ ﷺ کے بعد ان کے خلفائے راشدین امت کے دینی اور روحانی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ امورِ حکمرانی و جہانبانی میں بھی امت کے قائد اور امام تھے۔​
ایک اور لائقِ توجہ بات یہ ہے کہ اسلامی ماخذ میں خلافت کے ساتھ ساتھ امامت کا لفظ بھی متداول اور مروج ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے خلیفہ ، امام ، امیر ، ( امیر المئومنین یا امیر المسلمین) اور اولی الامر وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس اعتبار سے خلیفہ اور امیر ، نیز خلافت اور امامت مترادف الفاظ ہیں۔​
 
بقیہ:
تاریخِ خلافت​
رسول اللہ ﷺ کی وفات کےبعد آپ کی جانشینی کا مسئلہ اٹھا جسے مختصر بحث و مباحثے کے بعد طے کرلیا گیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے متفق علیہ خلیفہ کے طور پر منتخب ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت ( ربیع الاول ۱۱ ہجری۔ جون ۶۳۲) کے ساتھ ہی گویا ادارہ خلافت وجود میں آگیا۔ ابتدائی چار خلفا کے دور کو ‘‘ خلافتِ راشدہ’’ کا دور کہا جاتا ہے۔دورِ خلافتِ راشدہ دراصل دورِ نبوت کا تسلسل تھا جس میں حکومت و اقدار کے نہ اصول بدلے نہ معیارات۔ لہٰذا یہ دور ‘‘ خلافت علی منہاج النبوہ’’ کہلاتا ہے۔ یہ صالح اور متقی خلفا ( حضرات ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کا وہ عہد حکومت ہے جسے امتِ محمدیہ کی اجتماعی تائید و حمایت حاصل تھی، گو کہ خلافت کا یہ سلسلہ اس کے بعد بھی صدیوں جاری رہا۔ تاہم خلافتِ راشدہ کے دور کو اس کی خصوصیات کی بنا پر ‘‘ خلافتِ خاصہ’’ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور بعد کے زمانہ خلافت کو ‘‘ خلافتِ عامہ’’ کہا گیا ہے۔​
خلافتِ راشدہ کے بعد ، خلفائے بنو امیہ کا دور تقریباً ۹۲ سال رہا۔ ( ۴۱ ہجری ۔ ۶۶۱ عیسوی سے ۱۳۲ ہجری۔۷۵۰ ع) اور اس دوران چودہ خلفا نے حکومت کی اس کے بعد عباسی خلفا کا دورِ اول ہے۔ اس دور میں انھوں نے بغداد سے حکومت کی۔ پانچ سو سال سے زائد قائم رہنے والا یہ اقتدار بالاخر ہولاکو خان کی فوجوں کے ہاتھوں زیر و زبر ہوگیا۔ ۳۷ ویں عباسی خلیفہ المستعصم باللہ کو ہولاکو خان نے اپنے سامنے اتنے کوڑے لگوائے کہ ۴ صفر ۶۵۶ ہجری۔ ۱۰ فروری ۱۲۵۸ ع میں خلیفہ نے شہادت پائی اور سقوطِ بغداد کا عمل مکمل ہوگیا۔​
فارسی کے مشہور شاعر سعدی شیرازی اس زمانے میں زندہ تھے ۔ انھوں نے اس حادشہ خونچکاں سے متاثر ہو کر جو مرثیہ لکھا اس کا پہلا شعر یہ ہے​
آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمین​
بر زوال ملک المستعصم امیر المومنین​
اس کے بعد دو سال تک خلافت موقوف رہی۔ دوسالہ تعطل کے بعد خلافتِ عباسیہ کا دوسرا دور قاہرہ مصر سے شروع ہوا۔ وہ اس طرح کہ ۳۶ ویں عباسی خلیفہ المستنصر باللہ کا بھائی ابولقاسم احمد بن الظاہر بامراللہ کسی نہ کسی طرح ہولاکو خان کے قتلِ عام سے بچ کر مصر پہنچ گیا۔وہاں ان دنوں چوتھا مملوک حکمران ملک بیبرس حکمران تھا۔ خلافت کو چونکہ مسلمانوں کے نزدیک تقدس اور برتری کا اہم ترین مقام حاصل تھا، لہٰذا ملک ظاہر بیبرس نے اسے غنیمت سمجھا کہ اس کے ہاتھوں خلافت کا احیا ہوجائے۔ لہٰذا اس نے ابوالقاسم احمد کو خلیفہ بنا کر ۶۵۹ ہجری میں اس کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ نئے خلیفہ نے المستنصر باللہ ( ثانی) کا لقب اختیار کیا۔ یوں مصر میں عباسی خلافت کا دوسرا دور شروع ہوا۔اس دور میں سترہ خلفا گزرے، بحیثیت مجموعی ان خلفا کی حیثیت، مملوک سلاطین کے مقابلے میں کمزور تھی تاہم اس منصب کا ایک وقار تھا جو کسی نہ کسی حد تک قائم رہا۔​
جب سلطنتِ عثمانیہ کے نویں حکمران سلطان سلیم اول کے ہاتھوں ممالیک مصر کا اقتدار ختم ہوگیا تو مصر میں کچھ عرصہ قیام کے بعد یہاں سے واپس جاتے ہوئے سلیم اول نے آخری عباسی خلیفہ المتوکل علی اللہ ثالث کو بھی اپنے ہمراہ لے لیا اور قسطنطنیہ میں اس کی رہائش اور قیام و طعام کا معقول بندو بست کردیا۔تاہم المتوکل نے اس بے اختیار خلافت سے دست برداری کا اعلان کردیا اور خود سلیم اول کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ یوں خلافت عباسیوں سے عثمانیوں میں منتقل ہوگئی۔ یہ ۹۳۳ ھ / ۱۵۱۷ ع؁ کا واقعہ ہے ۔ چونکہ اس وقت ترکوں کا ستارہ عوجِ کمال پر تھالہٰذا خلافت ایک مضبوط ادارہ کی شکل اختیار کرگئی۔ سوائے ایران کی صفوی حکومت کے، ہر حکومت کے فرمانروا خلیفت وقت سے فرمانروائی کی سند حاصل کرنے کو اپنی کامیابی سمجھتے تھے۔ جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں تھے وہ بھی ادارہ ِ خلافت سے قوت اور طاقت حاصل کرتے تھے اور خلیفہ ان کا بھی مربی سمجھا جاتا تھا۔ شمسی اعتبار سے چار سو چھ سال تک اور قمری حساب سے چار سو انیس سال تک یہ خلافت عثمانیوں کے پاس رہی، جس میں ۱۹ خلفا، کچھ طاقتور ، کچھ کمزور گزرے، تاآنکہ ۱۳۴۲ھ / ۱۹۲۴ع؁ کو مصطفیٰ کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا ۔ِ​
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا​
اس خلافت کو شریفِ مکہ ، حسین ابنِ علی نے حاصل کرنے کی کوشش کی ، لیکن چونکہ ۱۹۱۶ع؁ میں جنگِ عظیم اول کے دوران اس نے ترکوں کے خلاف بغاوت کرکے عالمِ اسلام کی ناراضگی مول لے لی تھی ، لہٰذا اس کی یہ خلافت ہر ایک کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہوسکتی تھی۔​
اقبال کہتے ہیں۔​
بیچتا ہے ہاشمی، ناموسِ دینِ مصطفیٰ​
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش​
برطانیہ کے ساتھ ساز باز کے نتیجے میں شریف حسین نے حجاز کی حکومت حاصل کرلی تھی۔ پہلے اس نے سلطانِ عرب ہونے اعلان کیا ، پھر جب ترکی سے خلافت کا خاتمہ کردیا گیا تو اس نے ‘‘ خلیفۃ المسلمین ’’ کا لقب بھی اختیار کرلیا۔ لیکن جلد ہی اسے اپنے دیرینہ حریف عبدالعزیز ابنِ سعود کے ہاتھوں شکست کھا کر حجاز سے فرار ہونا پڑا۔ ( ازاں بعد وہ ۱۳۵۰ھ /۱۹۳۱ ع میں ) نظر بندی کے دوران وفات پاگیا۔​
خلافت کے ادارے کے خاتمے کے پیچھے صیہونی عزائم کار فرما تھے۔ خلافت کے خاتمے سے اسلامی دنیا کی مرکزیت ختم کی جاسکتی تھی۔ اس مقصد کے حصول میں ترکی نژاد یہودی جو دونمہ کہلاتے ہیں، اور مشرقی یورپ کے یہودی جو اش نکیازم کہلاتے ہیں، نے نہایت اہم رول ادا کیا جبکہ یہ بات اب طشت از بام ہوچکی ہے کہ ترکی کے مصطفیٰ کمال پاشا ، بدنامِ زمانہ یہودی تحریک فری میسن لاج کے سرگرم رکن تھے۔( اس کے علاوہ ایران کے آخری شاہ رضا شاہ پہلوی، مصر کے صدر انور سادات، اور ایران کے وزیرِ اعظم امیر عباس ہویدا کے بارے میں متعین طور پر معلوم ہے کہ وہ فری میسن تحریک کے سرگرم کارکن تھے۔ دیکھئے اسرار عالم کی کتاب ‘‘ بین الاقوامی ایجنسیاں’’ ادارہ معارفِ اسلامی کراچی( صفحہ ۲۵)۔​
اثراتِ الغائے خلافت​
خلافت کے خاتمے پر عالمِ اسلام میں غیر معمولی دکھ کا اظہار کیا گیا۔ مسلمانانِ عالم تو یہی چاہتے ہیں کہ خلافت کا ادارہ دوبارہ قائم ہوجائے لیکن اسلامی ممالک کے سیاسی زعما اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے اس میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔​
خلافت کے خاتمے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ عالمِ اسلام لامرکزیت کا شکار ہوگیا۔ آج ۵۶ اسلامی ممالک ہیں۔ ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ مگر ان کی کوئی متحدہ طاقت نہیں ہے۔ ہر اسلامی ملک اپنی اپنی اکائی میںاپنے اپنے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ بلکہ بعض حالات میں اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی وجہ سے دوسرے مسلمان ملک سے دست بگریباں ہے۔ اسی لامرکزیت کی وجہ سےآج اقوامِ عالم میں عددی برتری کے باوجود مسلمانوں کی نہ کوئی آواز ہے نہ کوئی دباأ۔ لہٰذا مسلمان کبھی بوسنیا اور مقدونیہ میں مارا جاتا ہے تو کبھی شیشان اور افغانستان میں اس کا قتلِ عام ہوتا ہے۔ اور سارا عالم اسلام ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بن جاتا ہے۔ اقومِ متحدہ میں مسلمانوں کے ۵۶ ووٹ ہیں ، لیکن مسلمانوں کو کوئی نہیں پوچھتا کہ آخر وہ کس کھیت کی مولی ہیں۔ عددی برتری کے باوجود عالمی برادری پر عالمِ اسلام کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔​
ادارہ خلافت کے خاتمے کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسلام کے نظریہ ملت کو ناقابلِ تلافی زک پہنچی۔ اس کے مقابلے میں مغرب کے نظریہ قومیت Nationalism) کوپزیرا ئی ملی۔ اس لیے نہیں کہ یہ نظریہ درست تھا بلکہ اس لیے کہ اسلام کے نظریہ ملت کا دفاع کرنے والےکمزور ہوگئے تھے۔یورپ میں نیشنلزم کا نظریہ انیسویں صدی تک پورے طور پر پھیل چکا تھا۔ مسلمان نوجوان جو حصول علم کے لیے یورپ کے ممالک جاتے تھے، ان نظریات سے متاثر ہورہے تھے۔۱۹۱۶ کی عرب بغاوت اسی کا نتیجہ تھی۔ اور خلافت کے خاتمے کے بعد تو سارے ہی مسلمان ملکوں کا رجحان پہلے سے زیادہ شدت سے قومیت کی طرف بڑھنے لگا۔ اور مسلمانوں کی عالمی سیاسی وحدت کا تصور دھندلاتا چلا گیا۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ مسلم ملک چاہے اس کی آبادی چند لاکھ ہی کیوں نہ ہو، ایک مستقل قومیت کا حامل اور ایک مستقل حکومت کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اہل اسلام جنھیں ایک نظام خلافت کے جھنڈے تلے اکٹھا رہنا چاہیے تھا، بے شمار ٹکڑوں میں بٹ کر رہ گئےاور قریب قریب ہر ٹکڑا بے وزن ہورہا۔ان چھوٹے بڑے، کٹے پھٹے ، بے وزن ٹکڑوں کو دیکھ کر بادی النظر میں یہ اندازہ لگانا دشوار ہے کہ جب یہ ایک ادارہ خلافت کے تحت متحد تھے تو ایک زبردست عالمی طاقت تھے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ عالم ِ اسلام اب بھی اپنی خستہ حالی پر نظر ڈالنے کو تیار نہیں۔​
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا​
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا​
آج مسلمان اتنا بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ بے وزنی اور جرم ضعیفی کی سزا ذلت اور سرافگنی کے سوا کچھ اور نہیں ہوا کرتی۔​
از جدید ترکی۔ جنگِ عظیم اول سے بیسویں صدی کے اختتام تک۔ترکی کی سیاسی تاریخ از ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر​
 

arifkarim

معطل
خلافت کے ادارے کے خاتمے کے پیچھے صیہونی عزائم کار فرما تھے۔ خلافت کے خاتمے سے اسلامی دنیا کی مرکزیت ختم کی جاسکتی تھی۔ اس مقصد کے حصول میں ترکی نژاد یہودی جو دونمہ کہلاتے ہیں، اور مشرقی یورپ کے یہودی جو اش نکیازم کہلاتے ہیں، نے نہایت اہم رول ادا کیا جبکہ یہ بات اب طشت از بام ہوچکی ہے کہ ترکی کے مصطفیٰ کمال پاشا ، بدنامِ زمانہ یہودی تحریک فری میسن لاج کے سرگرم رکن تھے۔( اس کے علاوہ ایران کے آخری شاہ رضا شاہ پہلوی، مصر کے صدر انور سادات، اور ایران کے وزیرِ اعظم امیر عباس ہویدا کے بارے میں متعین طور پر معلوم ہے کہ وہ فری میسن تحریک کے سرگرم کارکن تھے۔ دیکھئے اسرار عالم کی کتاب ‘‘ بین الاقوامی ایجنسیاں’’ ادارہ معارفِ اسلامی کراچی( صفحہ ۲۵)۔
یہ کتاب "بین الاقوامی ایجنسیاں" نیٹ پر کہیں دستیاب ہے؟ یہ سچ ہے کہ صیہونیت کے بانی تھیوڈر ہرزل نے سلطان عبدالحمید ثانی سے فلسطین میں یہودی ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن حقائق کے مطابق انہوں نےاسکو جھٹلا دیا مگر یہودی امیگریشن کو مکمل طور پر روکنے میں ناکام رہے:
http://www.alnakba.org/chronology/first.htm
http://en.wikipedia.org/wiki/Abdul_Hamid_II#Question_of_Islam
 

محمد وارث

لائبریرین
عارف صاحب اگر آپ کوئی علمی بحث کرنا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ لیکن آپ سے التماس ہے کہ اس طرح طنز کے نشتر چلا کر دوسروں کو اس سے بھی سخت جواب دینے پر مجبور نہ کریں، محفل کی فضا کو تکدر سے صاف رکھنا ہمارا بنیادی کام ہے تا کہ ہر کوئی اس طرح کی مسموم فضا کا شکار ہو کر اس محفل کے بنیادی مشن ، اردو اور اردو کمپیوٹنگ کی اشاعت و ترویج و ترقی، کو نہ بھول جائے۔ امید ہے اس پر غور فرمائیں گے بصورتِ دیگر ظاہر ہے منتظمین محفل کی پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی صوابدید پر کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
عارف صاحب اگر آپ کوئی علمی بحث کرنا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ لیکن آپ سے التماس ہے کہ اس طرح طنز کے نشتر چلا کر دوسروں کو اس سے بھی سخت جواب دینے پر مجبور نہ کریں، محفل کی فضا کو تکدر سے صاف رکھنا ہمارا بنیادی کام ہے تا کہ ہر کوئی اس طرح کی مسموم فضا کا شکار ہو کر اس محفل کے بنیادی مشن ، اردو اور اردو کمپیوٹنگ کی اشاعت و ترویج و ترقی، کو نہ بھول جائے۔ امید ہے اس پر غور فرمائیں گے بصورتِ دیگر ظاہر ہے منتظمین محفل کی پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی صوابدید پر کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
شکریہ۔ آئندہ احتیاط سے کام لیتا ہوں۔ مندرجہ بالا مراسلہ درست کر دیا ہے۔
 
Top