حسان خان
لائبریرین
"جشن نوروز:
مذہبی تہواروں کے علاوہ ہندوستان کے مسلمان سلاطین نوروز کا غیر مذہبی تہوار بھی مناتے رہے۔ یہ ایران اور پارسیوں، بلکہ وسطِ ایشیا کا تہوار ہے، جو پہلی فروردین کو منایا جاتا ہے۔ اسی مہینے سے ایرانی سال کا آغاز ہوتا ہے، اور موسمِ بہار بھی شروع ہو جاتا ہے، کیونکہ آفتاب برجِ حمل میں داخل ہوتا ہے۔ اسی خوشی میں یہ جشن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔
سلاطینِ دہلی کا نوروز:
سلاطینِ دہلی اور شاہانِ مغلیہ دونوں کے عہد میں بڑے تزک و احتشام سے یہ جشن منایا جاتا تھا۔ امیر خسرو نے سلاطینِ دہلی میں کیقباد کے جشنِ نوروز کا جو منظوم حال مثنوی قران السعدین میں لکھا ہے، اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود اس کے ذکر سے کس قدر محظوظ ہوتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس موقع پر محل میں ہر قسم کی زینت و آرایش کی گئی، اس کے کنگرے بھی سجائے گئے، محل کی نو محرابوں میں زربفت کے پردے لٹکے ہوئے تھے، جشن گاہ میں پانچ چتر تھے، ایک سیاہ، دوسرا سفید، تیسرا سرخ، چوتھا سبز اور پانچواں پھولوں کا۔ سیاہ چتر میں نقش و نگار بنے ہوئے تھے، اور جا بجا موتی اس طرح لٹکتے ہوئے نظر آتے تھے جیسے سیاہ ابر میں بوندیں پڑ رہی ہوں۔ سفید چتر مدوّر تھا، اس کی چھت دروازے اور ستون سنہرے تھے، اور یہ بھی موتیوں سے جگمگا رہا تھا۔ سرخ چتر میں موتیوں کے علاوہ یاقوت بھی تھے۔ سبز چتر میں سبز اطلس لگائی گئی تھی، اور اس پر موتیوں کا ایک سبز سایہ دار اور بارآور درخت بنایا گیا تھا، جو معلوم ہوتا تھا کہ زمین کے سبزے کو زمرّدیں بنا رہا ہے۔ پھولوں کا چتر چمن کی طرح کھلا ہوا تھا۔ دربار کے دائیں بائیں سیاہ شاہی پرچم اور دو ہزار گھوڑے تھے۔ دائیں طرف کے گھوڑوں پر سیاہ جھولیں پڑی تھیں۔ بائیں طرف کے گھوڑوں کی جھولیں سرخ تھیں۔ اُن کے پیچھے ہاتھیوں کی قطار اس طرح تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ لوہے کے قلعے پر پاکھر پڑی ہے۔ دربار کے بیچ میں زر و جواہر سے مرصع ایک مصنوعی چمن بنایا گیا تھا۔ اس کے مصنوعی درختوں کی شاخوں میں پھل اس طرح لٹک رہے تھے، جیسے ابھی ٹپک پڑیں گے۔ اس کی چڑیاں ایسی معلوم ہوتی تھیں کہ ابھی اڑنا چاہتی ہیں۔ بہت سے درخت موم کے بھی تھے اور ایسے دلفریب گلدستے تیار کیے تھے کہ سبزہ، لالہ، ریحان اور بید کا ایک چمن نظر آتا تھا۔ زری کے کام سے بھی دربار کو جنت نگاہ بنایا گیا تھا۔ اطلس، زربفت، اور یاقوت کے پردے دیواروں پر لٹکتے تھے، جس سے دیوار کے پتھر بھی یاقوتی رنگ کے معلوم ہو رہے تھے۔ فرش پر بھی موتی اور سونے کا کام تھا۔ غرض پورا محل سونے سے ایسا آراستہ کر دیا گیا تھا کہ فردوسِ بریں کا دھوکا ہوتا تھا، اور جب جشن منانے کے لیے سلطان کی آمد آمد کا غلغلہ ہوا تو چاؤش نے نعرے لگائے اور سلطان کے محافظ دستے ادھر اُدھر حرکت کرنے لگے۔ شحنۂ بارگاہ نے صفیں سیدھی کیں، کچھ دستے تلواریں لیے دائیں بائیں ہو گئے۔ جب بادشاہ سونے کے تخت پر آ کر بیٹھا تو اُس کا تاج جگمگانے لگا۔ اس کی قبا میں سونے کی اعلیٰ درجے کی صنعت کاری تھی۔ اس کے تاج، قبا اور پٹکے میں موتی اس طرح ٹکے ہوئے تھے کہ پٹکے کی چمک کمر تک اور قبا کی گلے تک اور تاج کی سر تک تھی۔ دربار کی زمین اور فضا نافۂ چینی سے معطر کی گئی تھی۔ جب بادشاہ تخت پر جلوہ افروز ہوا تو نذریں پیش ہونے لگیں۔ محاسب اس کو لکھتا جاتا، اور حاجب پکار پکار کر تفصیل بیان کرتا جاتا تھا۔
اس موقع پر دربار کے خوانین اور امراء سلطان کی خدمت میں پیش کیے جاتے، اور ان میں سے ہر ایک کے کارنامے بھی بیان کیے جاتے۔ بلبنی عہد میں جشنِ نوروز کے موقع پر دربار کے ایک معزز خان کشلی خاں کی مدح میں شاہی مطربوں نے ایک نظم سنائی۔ مجلس ختم ہونے کے بعد کشلی خان نے مدح نگار شاعر خواجہ شمس معین کو بلا کر مجلسِ نوروزی کا کُل پُرتکلف اور قیمتی سامان دے دیا، اور مطربوں کو دس ہزار ٹنکے (کذا) انعام دیے۔"
(سید صباح الدین عبدالرحمٰن کی کتاب 'ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے' سے مقتبس)
مذہبی تہواروں کے علاوہ ہندوستان کے مسلمان سلاطین نوروز کا غیر مذہبی تہوار بھی مناتے رہے۔ یہ ایران اور پارسیوں، بلکہ وسطِ ایشیا کا تہوار ہے، جو پہلی فروردین کو منایا جاتا ہے۔ اسی مہینے سے ایرانی سال کا آغاز ہوتا ہے، اور موسمِ بہار بھی شروع ہو جاتا ہے، کیونکہ آفتاب برجِ حمل میں داخل ہوتا ہے۔ اسی خوشی میں یہ جشن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔
سلاطینِ دہلی کا نوروز:
سلاطینِ دہلی اور شاہانِ مغلیہ دونوں کے عہد میں بڑے تزک و احتشام سے یہ جشن منایا جاتا تھا۔ امیر خسرو نے سلاطینِ دہلی میں کیقباد کے جشنِ نوروز کا جو منظوم حال مثنوی قران السعدین میں لکھا ہے، اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود اس کے ذکر سے کس قدر محظوظ ہوتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس موقع پر محل میں ہر قسم کی زینت و آرایش کی گئی، اس کے کنگرے بھی سجائے گئے، محل کی نو محرابوں میں زربفت کے پردے لٹکے ہوئے تھے، جشن گاہ میں پانچ چتر تھے، ایک سیاہ، دوسرا سفید، تیسرا سرخ، چوتھا سبز اور پانچواں پھولوں کا۔ سیاہ چتر میں نقش و نگار بنے ہوئے تھے، اور جا بجا موتی اس طرح لٹکتے ہوئے نظر آتے تھے جیسے سیاہ ابر میں بوندیں پڑ رہی ہوں۔ سفید چتر مدوّر تھا، اس کی چھت دروازے اور ستون سنہرے تھے، اور یہ بھی موتیوں سے جگمگا رہا تھا۔ سرخ چتر میں موتیوں کے علاوہ یاقوت بھی تھے۔ سبز چتر میں سبز اطلس لگائی گئی تھی، اور اس پر موتیوں کا ایک سبز سایہ دار اور بارآور درخت بنایا گیا تھا، جو معلوم ہوتا تھا کہ زمین کے سبزے کو زمرّدیں بنا رہا ہے۔ پھولوں کا چتر چمن کی طرح کھلا ہوا تھا۔ دربار کے دائیں بائیں سیاہ شاہی پرچم اور دو ہزار گھوڑے تھے۔ دائیں طرف کے گھوڑوں پر سیاہ جھولیں پڑی تھیں۔ بائیں طرف کے گھوڑوں کی جھولیں سرخ تھیں۔ اُن کے پیچھے ہاتھیوں کی قطار اس طرح تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ لوہے کے قلعے پر پاکھر پڑی ہے۔ دربار کے بیچ میں زر و جواہر سے مرصع ایک مصنوعی چمن بنایا گیا تھا۔ اس کے مصنوعی درختوں کی شاخوں میں پھل اس طرح لٹک رہے تھے، جیسے ابھی ٹپک پڑیں گے۔ اس کی چڑیاں ایسی معلوم ہوتی تھیں کہ ابھی اڑنا چاہتی ہیں۔ بہت سے درخت موم کے بھی تھے اور ایسے دلفریب گلدستے تیار کیے تھے کہ سبزہ، لالہ، ریحان اور بید کا ایک چمن نظر آتا تھا۔ زری کے کام سے بھی دربار کو جنت نگاہ بنایا گیا تھا۔ اطلس، زربفت، اور یاقوت کے پردے دیواروں پر لٹکتے تھے، جس سے دیوار کے پتھر بھی یاقوتی رنگ کے معلوم ہو رہے تھے۔ فرش پر بھی موتی اور سونے کا کام تھا۔ غرض پورا محل سونے سے ایسا آراستہ کر دیا گیا تھا کہ فردوسِ بریں کا دھوکا ہوتا تھا، اور جب جشن منانے کے لیے سلطان کی آمد آمد کا غلغلہ ہوا تو چاؤش نے نعرے لگائے اور سلطان کے محافظ دستے ادھر اُدھر حرکت کرنے لگے۔ شحنۂ بارگاہ نے صفیں سیدھی کیں، کچھ دستے تلواریں لیے دائیں بائیں ہو گئے۔ جب بادشاہ سونے کے تخت پر آ کر بیٹھا تو اُس کا تاج جگمگانے لگا۔ اس کی قبا میں سونے کی اعلیٰ درجے کی صنعت کاری تھی۔ اس کے تاج، قبا اور پٹکے میں موتی اس طرح ٹکے ہوئے تھے کہ پٹکے کی چمک کمر تک اور قبا کی گلے تک اور تاج کی سر تک تھی۔ دربار کی زمین اور فضا نافۂ چینی سے معطر کی گئی تھی۔ جب بادشاہ تخت پر جلوہ افروز ہوا تو نذریں پیش ہونے لگیں۔ محاسب اس کو لکھتا جاتا، اور حاجب پکار پکار کر تفصیل بیان کرتا جاتا تھا۔
اس موقع پر دربار کے خوانین اور امراء سلطان کی خدمت میں پیش کیے جاتے، اور ان میں سے ہر ایک کے کارنامے بھی بیان کیے جاتے۔ بلبنی عہد میں جشنِ نوروز کے موقع پر دربار کے ایک معزز خان کشلی خاں کی مدح میں شاہی مطربوں نے ایک نظم سنائی۔ مجلس ختم ہونے کے بعد کشلی خان نے مدح نگار شاعر خواجہ شمس معین کو بلا کر مجلسِ نوروزی کا کُل پُرتکلف اور قیمتی سامان دے دیا، اور مطربوں کو دس ہزار ٹنکے (کذا) انعام دیے۔"
(سید صباح الدین عبدالرحمٰن کی کتاب 'ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے' سے مقتبس)