سلام از عارف امام

منہاج علی

محفلین
سلام

پاؤں کو جُنبش، تمنّا کو مچلنا چاہئے
شوقِ زوّاری رگ و پے سے ابلنا چاہئے

کربلا ہے آخری سجدہ گہہِ سبطِ رسول ع
کربلا میں سر بہ سجدہ ہوکے چلنا چاہئے

بہہ رہا ہوں آنکھ سے قطرہ بہ قطرہ یم بہ یم
اس ترائی پر تو مٹّی کو پگھلنا چاہئے

سانس لیتا ہوں جہاں بکھرا تھا قاسم ع کا بدن
حق تو یہ ہے سینۂ ہستی کچلنا چاہئے

چشمِ گریاں! مقتلِ ہم شکلِ پیغمبر ع ہے یہ
توڑ کر سینہ یہاں دل بھی نکلنا چاہیے

نوکِ نیزہ پر کچھ اس خاطر بھی سر ٹھہرا رہا
قافلے کی راہ میں سورج نہ ڈھلنا چاہیے

اور ابھی کچھ دن رہے سرسبز شاخِ نخلِ غم
اور ابھی کچھ دن مرے زخموں کو پھلنا چاہئے

تاکہ مرتے دم بھی رُخ پر موت کی زردی نہ ہو
خاکِ مقتل ہے اسے چہرے پہ مَلنا چاہیے

دیکھ آیا ہے چراغِ خفتۂ عاشور دل
اب اسے محشر تلک سینے میں جلنا چاہیے

رازق کُل نے مرا آزوقہ باندھا اور کہا
تجھ کو مجلس کے تبرّک پر ہی پلنا چاہیے

از ازل دربار کا جاروب کش ہے جبرئیل
بادشاہا! اب تو یہ نوکر بدلنا چاہئے

عارف امام
 
Top