الف نظامی
لائبریرین
سلام اس پر کہ کعبہ میں ولادت کا شرف پایا
جو بچپن ہی سے آغوشِ محمدﷺ میں چلا آیا
سلام اس پر جو شہزادہ ہے "یوم ذوالعشیرہ کا"
وہی اس وقت سارے پتھروں میں ایک ہیرا تھا
شبِ ہجرت نبی کے پاک بستر پر وہ سویا تھا
نبی کا عشق جس نے اپنی رگ رگ میں سمویا تھا
وہی خیبر میں جو زورِ ید اللہی کا مظہر ہے
مقابل جس کی طاقت کے نہ مرحب ہے نہ عنتر ہے
سلام اس پر جو شہر علم کا اک بابِ عالی ہے
وہ جس کا قلب حبِ دولتِ دنیا سے خالی ہے
سلام اس پر کہ جو توحید کی منزل دکھاتا ہے
ولایت کا ہر اک رستہ اسی کے در تک آتا ہے
سلام اس پر کہ جو محرم ہے ہر سر ِنہانی کا
سلام اس پر جو سرنامہ ہے ذوقِ جاں فشانی کا
جو قنبر کو لباسِ نو بنا کر دے سلام اس پر
سلام اس پر سدا پیوند کا کرتا سجے جس پر
اسی کا نام سن کر دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے
اسی کا نام سے تو زندگی مہمیز ہوتی ہے
سلام اس خوں پر ، محرابِ نبوت ہے امیں جس کی
سلام اس پر محبت ہے یقینا شرطِ دیں جس کی
وہ جس کے خانہ عرش آشیاں میں روشنی بن کر
ضیا افگن ہوئی ہے سرو نور عین پیغمبر
وہ خورشید ہدایت ، مرتضی ، کرار ، حیدر ہیں
کہ جس کی دائمی کرنیں یہاں شبیر و شبر ہیں
مدینے سے نجف تک نور کی اک لہر جاری ہے
وہاں بھی فضلِ باری ہے یہاں بھی فضلِ باری ہے
مری رگ رگ میں عشقِ مرتضی کا نور بہتا ہے
کہ وہ کونین کا محبوب میرے دل میں رہتا ہے
خدا کا شکر ہے اس کی غلامی سے مشرف ہوں
کہ مداحِ علی ہوں مدح گوئی میں مصرف ہوں
نسب کا فیض بھی پایا ہے ، میں نے ذاتِ عالی سے
غلامی کی سند بھی مل گئی کوفے کے والی سے
تمنا ہے قیامت میں ترے جھنڈے تلے اٹھوں
قصیدہ مدح میں پڑھتا ہوا فردوس تک پہنچوں
یہی اے سرو حسنِ آرزو ، حسنِ تمنا ہے
علی کے عشق سے میں ہوں ، علی کا عشق میرا ہے
از سید محمود احمد سرو سہارنپوری
جو بچپن ہی سے آغوشِ محمدﷺ میں چلا آیا
سلام اس پر جو شہزادہ ہے "یوم ذوالعشیرہ کا"
وہی اس وقت سارے پتھروں میں ایک ہیرا تھا
شبِ ہجرت نبی کے پاک بستر پر وہ سویا تھا
نبی کا عشق جس نے اپنی رگ رگ میں سمویا تھا
وہی خیبر میں جو زورِ ید اللہی کا مظہر ہے
مقابل جس کی طاقت کے نہ مرحب ہے نہ عنتر ہے
سلام اس پر جو شہر علم کا اک بابِ عالی ہے
وہ جس کا قلب حبِ دولتِ دنیا سے خالی ہے
سلام اس پر کہ جو توحید کی منزل دکھاتا ہے
ولایت کا ہر اک رستہ اسی کے در تک آتا ہے
سلام اس پر کہ جو محرم ہے ہر سر ِنہانی کا
سلام اس پر جو سرنامہ ہے ذوقِ جاں فشانی کا
جو قنبر کو لباسِ نو بنا کر دے سلام اس پر
سلام اس پر سدا پیوند کا کرتا سجے جس پر
اسی کا نام سن کر دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے
اسی کا نام سے تو زندگی مہمیز ہوتی ہے
سلام اس خوں پر ، محرابِ نبوت ہے امیں جس کی
سلام اس پر محبت ہے یقینا شرطِ دیں جس کی
وہ جس کے خانہ عرش آشیاں میں روشنی بن کر
ضیا افگن ہوئی ہے سرو نور عین پیغمبر
وہ خورشید ہدایت ، مرتضی ، کرار ، حیدر ہیں
کہ جس کی دائمی کرنیں یہاں شبیر و شبر ہیں
مدینے سے نجف تک نور کی اک لہر جاری ہے
وہاں بھی فضلِ باری ہے یہاں بھی فضلِ باری ہے
مری رگ رگ میں عشقِ مرتضی کا نور بہتا ہے
کہ وہ کونین کا محبوب میرے دل میں رہتا ہے
خدا کا شکر ہے اس کی غلامی سے مشرف ہوں
کہ مداحِ علی ہوں مدح گوئی میں مصرف ہوں
نسب کا فیض بھی پایا ہے ، میں نے ذاتِ عالی سے
غلامی کی سند بھی مل گئی کوفے کے والی سے
تمنا ہے قیامت میں ترے جھنڈے تلے اٹھوں
قصیدہ مدح میں پڑھتا ہوا فردوس تک پہنچوں
یہی اے سرو حسنِ آرزو ، حسنِ تمنا ہے
علی کے عشق سے میں ہوں ، علی کا عشق میرا ہے
از سید محمود احمد سرو سہارنپوری
آخری تدوین: