سلام برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
زمینِ مقتل پہ گر کے خاکِ شفا ہوا ہے
لہو یہ کس کا ہر اک مرض کی دوا ہوا ہے

یہ کون ہے جس کے لب کو پانی ترس رہا ہے
یہ کون ہے جس کے آگے دریا جھکا ہوا ہے

فنا کے ماتھے پہ کس نے لکھی بقا کی تحریر
یہ کس کی شہ رگ جس سے خنجر ڈرا ہوا

بجھا ہوا یہ چراغ ہے کس کی خیمہ گہ کا
قبیلۂ روشنی کا جو پیشوا ہوا ہے

یہ غم ہے کس کا، مٹائے مٹتا نہیں کسی سے
یہ ذکر کس کا کئی صدی سے چلا ہوا ہے

یہ کس کے انکار کی صدا اس قدر گراں ہے
غرور بیعت کا جس کے نیچے دبا ہوا ہے

جہان بھر کی ردائیں اس بے ردا پہ قرباں
کہ جس کے صدقے میں آج پردہ بچا ہوا ہے

زمانے بھر کی وفائیں اس با وفا پہ قرباں
کہ نام جس کا وفا کی وجہِ بقا ہوا

سخن کی دولت کہاں تھی کاسے میں تیرے فائق
ضرور تجھ کو کسی کا صدقہ عطا ہوا ہے
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے سلام، بس یہاں آخر میں ہے ردیف کا احساس دلاتا ہے
یہ کون ہے جس کے لب کو پانی ترس رہا ہے
یہ کون ہے جس کے آگے دریا جھکا ہوا ہے
اس کا پہلا مصرع بدل دو، جیسے
فرات جس کو ترس رہا ہے، وہ کس کے کب ہیں؟
اسی طرح 'گراں ہے' والا مصرع بھی بدل دو
اس کے علاوہ ردا/وفا کے قرباں والے مصرعوں کے درمیان فاصلہ رکھ دو
ایک جگہ شاید ٹائپو ہے،
شہ رگ کے بعد 'ہے' وزن اور گعامر کے لئے ضروری ہے
 

محمد فائق

محفلین
درست ہے سلام، بس یہاں آخر میں ہے ردیف کا احساس دلاتا ہے
یہ کون ہے جس کے لب کو پانی ترس رہا ہے
یہ کون ہے جس کے آگے دریا جھکا ہوا ہے
اس کا پہلا مصرع بدل دو، جیسے
فرات جس کو ترس رہا ہے، وہ کس کے کب ہیں؟
اسی طرح 'گراں ہے' والا مصرع بھی بدل دو
اس کے علاوہ ردا/وفا کے قرباں والے مصرعوں کے درمیان فاصلہ رکھ دو
ایک جگہ شاید ٹائپو ہے،
شہ رگ کے بعد 'ہے' وزن اور گعامر کے لئے ضروری ہے


بہت شکریہ سر رہنمائی کے لیے

یہ کس کے انکار کی صدا اس قدر ہے وزنی

یہ ٹھیک ہے سر مصرع

جی سر درد اصل "ہے" ٹائپنگ میں رہ گیا تھا
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ سر رہنمائی کے لیے

یہ کس کے انکار کی صدا اس قدر ہے وزنی

یہ ٹھیک ہے سر مصرع

جی سر درد اصل "ہے" ٹائپنگ میں رہ گیا تھا
درست ہے یہ، میری بھی ایک ٹائپو ہو گئی تھی، لب کی جگہ کب ٹائپ ہو گیا تھا، لیکن یہاں اس کا اظہار کر رہا ہوں، وہیں تدوین نہیں کر رہا
 

محمد فائق

محفلین
زمینِ مقتل پہ گر کے خاکِ شفا ہوا ہے
لہو یہ کس کا ہر اک مرض کی دوا ہوا ہے

فرات جس کو ترس رہا ہے وہ کس کے لب ہیں؟
وہ کون ہے جس کے آگے دریا جھکا ہوا ہے

زمانے بھر کی وفائیں اس با وفا پہ قرباں
کہ نام جس کا وفا کی وجہِ بقا ہوا ہے

فنا کے ماتھے پہ کس نے لکھی بقا کی تحریر
یہ کس کی شہ رگ ہے جس سے خنجر ڈرا ہوا

بجھا ہوا یہ چراغ ہے کس کی خیمہ گہ کا
قبیلۂ روشنی کا جو پیشوا ہوا ہے

یہ غم ہے کس کا، مٹائے مٹتا نہیں کسی سے
یہ ذکر کس کا کئی صدی سے چلا ہوا ہے

یہ کس کے انکار کی صدا اس قدر ہے وزنی
غرور بیعت کا جس کے نیچے دبا ہوا ہے

جہان بھر کی ردائیں اس بے ردا پہ قرباں
کہ جس کے صدقے میں آج پردہ بچا ہوا ہے

سخن کی دولت کہاں تھی کاسے میں تیرے فائق
ضرور تجھ کو کسی کا صدقہ عطا ہوا ہے

درست ہے یہ، میری بھی ایک ٹائپو ہو گئی تھی، لب کی جگہ کب ٹائپ ہو گیا تھا، لیکن یہاں اس کا اظہار کر رہا ہوں، وہیں تدوین نہیں کر رہا
درست ہے یہ، میری بھی ایک ٹائپو ہو گئی تھی، لب کی جگہ کب ٹائپ ہو گیا تھا، لیکن یہاں اس کا اظہار کر رہا ہوں، وہیں تدوین نہیں کر رہا
 
Top