محمد فائق
محفلین
زمینِ مقتل پہ گر کے خاکِ شفا ہوا ہے
لہو یہ کس کا ہر اک مرض کی دوا ہوا ہے
یہ کون ہے جس کے لب کو پانی ترس رہا ہے
یہ کون ہے جس کے آگے دریا جھکا ہوا ہے
فنا کے ماتھے پہ کس نے لکھی بقا کی تحریر
یہ کس کی شہ رگ جس سے خنجر ڈرا ہوا
بجھا ہوا یہ چراغ ہے کس کی خیمہ گہ کا
قبیلۂ روشنی کا جو پیشوا ہوا ہے
یہ غم ہے کس کا، مٹائے مٹتا نہیں کسی سے
یہ ذکر کس کا کئی صدی سے چلا ہوا ہے
یہ کس کے انکار کی صدا اس قدر گراں ہے
غرور بیعت کا جس کے نیچے دبا ہوا ہے
جہان بھر کی ردائیں اس بے ردا پہ قرباں
کہ جس کے صدقے میں آج پردہ بچا ہوا ہے
زمانے بھر کی وفائیں اس با وفا پہ قرباں
کہ نام جس کا وفا کی وجہِ بقا ہوا
سخن کی دولت کہاں تھی کاسے میں تیرے فائق
ضرور تجھ کو کسی کا صدقہ عطا ہوا ہے
لہو یہ کس کا ہر اک مرض کی دوا ہوا ہے
یہ کون ہے جس کے لب کو پانی ترس رہا ہے
یہ کون ہے جس کے آگے دریا جھکا ہوا ہے
فنا کے ماتھے پہ کس نے لکھی بقا کی تحریر
یہ کس کی شہ رگ جس سے خنجر ڈرا ہوا
بجھا ہوا یہ چراغ ہے کس کی خیمہ گہ کا
قبیلۂ روشنی کا جو پیشوا ہوا ہے
یہ غم ہے کس کا، مٹائے مٹتا نہیں کسی سے
یہ ذکر کس کا کئی صدی سے چلا ہوا ہے
یہ کس کے انکار کی صدا اس قدر گراں ہے
غرور بیعت کا جس کے نیچے دبا ہوا ہے
جہان بھر کی ردائیں اس بے ردا پہ قرباں
کہ جس کے صدقے میں آج پردہ بچا ہوا ہے
زمانے بھر کی وفائیں اس با وفا پہ قرباں
کہ نام جس کا وفا کی وجہِ بقا ہوا
سخن کی دولت کہاں تھی کاسے میں تیرے فائق
ضرور تجھ کو کسی کا صدقہ عطا ہوا ہے