سلام رضا کے ایک شعر کی وضاحت درکار ہے

مبشر شاہ

محفلین
محفل کے توسط سے ایک شعر کامطلب دریافت کرنا چاہتا ہوں

کثرتِ بعدِ قلت پہ اکثر درود
عزتِ بعدِ ذلت پہ لاکھوں سلام
 

یوسف-2

محفلین
لفظی مطلب تو یہ ہوگا کہ:
قلت (کمی) کے بعد کثرت (یعنی زیادہ حاصل ہونے پر) درود اور ذلت کے بعد عزت (حاصل ہونے پر) سلام

دُرُود {دُرُود} (فارسی)

فارسی سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے من و عن داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے 1564ء کو حسن شوقی کے دیوان میںمستعمل ملتا ہے۔ اسم نکرہ (مذکر، مؤنث - واحد)

معانی
1. صلوات، اگر خدا کی طرف سے ہو تو رحمت و برکت اور ملائکہ کی جانب سے ہو تو استغفار، اگر اہل ایمان کی جانب سے ہو تو (بالخصوص نبی بر حق پر) دعا اور سلام اور بہائم و طیور کی نسبت سے ہو تو تسبیح کے معنی دیتا ہے۔

"درود نا محدود واسطے سیدالمرسلین خاتم النبینۖ محمد مصطفٰیۖ کے لائق ہے جس نے گمراہوں کو وادی ضلالت سے نکال کر منزل ہدایت پر پنہچایا۔"، [1]

2. وہ مقررہ کلمات جو نماز میں یا دوسرے مواقع پر آنحضرت اور ان کی آل اخیار وغیرہ کے لیے دعائے رحمت کے طور پر پڑھتے ہیں۔

؎ درود پڑھ کے سجایا ہے دل کا پروانہ

خبر کرو کوئی دنیا سجانے والوں کو، [2]

انگریزی ترجمہ
Benediction, blessing, mercy; prayer; praise (especially of Muhammad); thanks giving; congratulation; salutation.

سَلام {سَلام} (عربی)
س ل م، سَلام
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے۔ اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ 1503ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت ( مذکر ) جمع غیر ندائی: سَلاموں {سَلا + موں (و مجہول)}


معانی
1. تسلیم، بندگی، آداب، کورنش۔

"آپ جہاں جا رہے ہیں ان کو ہمارا سلام کہیے گا۔"، [1]

2. رخصت، خدا حافظ کی جگہ۔

؎ سراب دہر کو میرا سلام اے ابرار

جہان بے سرو ساماں میں جی نہیں لگتا، [2]

3. معاف رکھیے اور باز آیا کی جگہ، ناامیدی اور مایوسی کے موقع پر بھی مستعمل۔

؎ بس سلام آپ کو ہم آج سے اے بندہ نواز

خوب پہچان گئے جان گئے مان گئے، [3]

4. نماز کا سلام جو نماز ختم کرنے کے لیے تشہد اور درود وغیرہ کے بعد پڑھا جاتا ہے، نماز ختم کرتے وقت پہلے دائیں پھر بائیں طرف منھ پھیرتے ہیں اور ہر بار السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہیں۔

"وہ ظہر کی نماز پڑھ رہی تھیں کچھ دیر تک کھڑا بڑبڑاتا رہا جب وہ سلام پھیر چکیں تو [[دل کھول کر]] بھڑاس نکالی۔"، [4]

5. مسلمانوں کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں یا آپ کے روضۂ مبارک کی طرف رخ کر کے السلام علیک الخ پڑھنا، درود محمدیۖ۔

؎ اس کے کرم نے کھینچ لیا جالیوں کے پاس

ڈرتا تھا میں سلام پڑھا میں نے دور سے، [5]

6. خدا کی طرف سے سلامتی کا نزول۔

؎ تحیت نبی کی رخن تی ہوا

سلام ہور شرف حق کرن تی ہوا، [6]

7. سلامتی، امن و امان۔

؎ ہیں آنسو شفائے دل مبتلا

رسول سلام و سفیر سکوں، [7]

8. خدائے تعالٰی کا وصفی نام۔

؎ تو سلام و خالق و متعال و عدل و کریم

تو عزیز و باری و غفار و فتاح و علیم، [8]

9. ایک قسم کی رثائیہ اور مدحیہ نظم جو غزل کی ہیئت میں ہوتی ہے اور جسمیں عموماً معرکۂ کربلا کا ذکر ہوتا ہے۔

"حسب فرمائش دو چار سلام موزوں کیے تھے وہ یاد نہیں۔"، [9]

10. مرحبا، آفریں، کلمۂ تحسین۔


پس نوشت: شاعر نے یہاں “قلت و کثرت” اور “درود و سلام” کن معنون میں اور کس پس منظر میں استعمال کیا ہے، اسے کوئی مستند شاعر ہی بتلا سکتا ہے۔
الف عین
 

الف عین

لائبریرین
میں بھی اس سلسلے میں کچھ کہنے کی حالت میں نہیں۔ اکثر لوگ ان کے کلام کو محض اس لئے پسند کرتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کا کلام ہے۔ لیکن مجھے تو کئی جگہ مسئلے پیش آئے۔شاعری کی رو سے۔
 
Top