سلام یا حسین علیہ السلام : محرم الحرام 1435ھ

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے

تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی

رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار
تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار

مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے
ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی

پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل
وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل

بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو
باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی

دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا
تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا
ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا

کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے
خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

فرمایا کہ کیوں درپئے ‌آزار ہو لوگو
حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو
واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو
معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو

کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے
معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو
زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو

سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا
جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا
جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا

نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر
پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر
قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر

مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

شاعر فیض احمد فیض
 

حسینی

محفلین
کربلاکیاہے؟

کربلا ۔۔۔ کہ جہاں تار یخ کے بہتر ّ (72)سچے ترین افراد باطل کے سامنے ڈٹ گئے اورپھر باطل کو مسمار کردیا۔
کربلا۔۔۔ کہ جہاں تلواروں اور نیزوں کا شور ذکر خدا کے سامنے خاموش ہو کر رہ گیا۔
کربلا ۔۔۔کہ جہاں پانی علی اصغر ؑ کی پیاس دیکھ کر آب آب ہو کر رہ گیا۔
کربلا۔۔۔ کہ جہاں اک بہن نے بھائی کا ساتھ دیتے ہوئے اپنا سب کچھ دین خدا پر قربان کردیا، حتی کہ اپنی نسل بھی۔
کربلا۔۔۔ کہ جہاں موت شہد سے بھی شیرین نظر آتی ہے۔
کربلا۔۔۔ کہ جہاں اک بھوڑا باپ جواں بیٹے کا لاشہ اکیلے اٹھاتا ہے۔۔ اور پھرندا دیتا ہے۔۔۔ علی اکبر ؑ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہے علی اکبرؑ۔
کربلا ۔۔۔کہ جہاں اک بھائ دوسرے بھائ کی شہادت پر ندا دیتا ہے۔۔۔ عباسؑ میری کمر ٹوٹ گئ عباسؑ۔
کربلا ۔۔۔ کہ جہاں اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے بعد حسینؑ کی آواز آتی ہے۔۔ رضا بقضائک وتسلیما لامرک، لامعبود سواک یاغیاث المستغیثین۔
کربلا۔۔۔ کہ جہاں خیموں میں آگ لگ چکی ہے۔۔۔ اور زینبؑ مصلائے عبادت پہ بیٹھی نماز شب پڑھ کر معبود کا شکر ادا کر رہی ہے۔۔۔ اور پھر کہتے ہوئی نظر آتی ہے : میں نے کربلا میں سوائے زیبائی کے کچھ نہیں دیکھا۔
اے آسمان کیا تو نے کبھی ایسا منظر دیکھا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حسینی

محفلین
حقّا کہ بنائے لاالہ است حسینؓ
495x278x6970_79446136.jpg.pagespeed.ic.rHOVfVquIr.jpg

طیبہ بخاری

محرم ،کربلا اور حسین ؓ کا نام آتے ہی آنکھیں وضو کرنے لگتی ہیں ۔ بے شک یہ ایام صراطِ مستقیم،دین کی سر بلندی ،فلسفہ قربانی اورمقصدِ حیات سمجھنے کے ہیں ۔ کربلامیں اہل ِ بیتؓ کی قربانیوں نے دین کو نئی زندگی عطا کی ۔اسلام اور توحید کو سمجھنے کیلئے امام ِ عالی مقامؓ کے چند ارشادات کا مطالعہ کرلینا ہی کافی ہے ۔ آپ ؓ فرماتے ہیں کہ’’معبود، جوچیزیں اپنے وجود میں تیری محتاج ہیں ان سے تیرے لئے کیونکر استدلال کیا جا سکتا ہے؟ کیاکسی کے لئے اتناظہور ہے جوتیرے لئے ہے؟ تاکہ وہ تیرے اظہار کا ذریعہ بن سکے،(بھلا) توغائب ہی کب تھاکہ تیرے لئے کسی ایسی دلیل کی ضرورت پڑے جو تیرے اوپر دلالت کرے؟ اورتوکب دورتھا تاکہ آثارکے ذریعے تجھ تک پہنچاجاسکے؟ اندھی ہوجائیں وہ آنکھیں جو تجھے نہ دیکھ سکیں حالانکہ توہمیشہ ان کاہم نشین تھا۔ (دعائے عرفہ ،بحار/ج 98 ص 226)۔مظلوم ِ کربلا ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ’’ جس نے تجھ کوکھودیااس کوکیاملا؟ اورجس نے تجھ کوپالیاکون سی چیزہے جس کواس نے نہیں حاصل کیا؟ جوبھی تیرے بدلے میں جس پربھی راضی ہوا،وہ تمام چیزوں سے محروم ہوگیا‘‘۔(دعائے عرفہ ،بحار/ج 98 ص 22۔ آپ ؓ کے ارشادات میں تو حید کی انتہائی آسان اور مختصر الفاظ میںتشریح ملتی ہے کہ’’ اس قوم کوکبھی فلاح حاصل نہیں ہوسکتی جس نے خداکوناراض کرکے مخلوق کی مرضی خریدلی۔(مقتل خوارزمی،ج 1 ص 239) ۔ قیامت کے دن اسی کوامن وامان حاصل ہوگا جو دنیا میں خداسے ڈرتارہاہو۔(بحار/ج 44 ص 192)۔ خداوندعالم نے امربہ معروف ونہی ازمنکرکواپنے ایک واجب کی حیثیت سے پہلے ذکرکیاکیونکہ وہ جانتاہے کہ اگریہ دونوں فریضے (امربمعروف ونہی ازمنکر) اداکئے گئے توسارے فرائض خواہ سخت ہوںیانرم،قائم ہوجائیں گے کیونکہ یہ دونوں انسانوں کواسلام کی طرف دعوت دینے والے ہیں اورصاحبان حقوق کے حقوق ان کی طرف پلٹانے والے ہیں اورظالموں کومخالفت پرآمادہ کرنے والے ہیں۔(تحف العقول ص 237)۔ لوگو! رسولؐ خداکاارشادہے : جودیکھے کسی ظالم بادشاہ کوکہ اس نے حرام کوحلال کردیاہے، پیمان الہٰی کوتوڑدیاہے سنت رسولؐ کی مخالفت کرتاہے، بندگان خداکے درمیان ظلم وگناہ کرتاہے اورپھربھی نہ عمل سے اورنہ قول سے اس کی مخالفت کرتاہے توخداپرواجب ہے کہ اس ظالم بادشاہ کے عذاب کی جگہ اس کوڈال دے۔(مقتل خوارزمی،ج 1 ص 234)۔ لوگ دنیاکے غلام ہیں ،اوردین ان کی زبانوں کے لئے چٹنی ہے ،جب تک (دین کے نام پر) معاش کادارومدارہے دین کانام لیتے ہیں لیکن جب مصیبتوں میں مبتلاہوجاتے ہیں تو دینداروں کی تعدادبہت کم ہوجاتی ہے۔تحف العقول ص 445)۔ جوشخص خداکی نافرمانی کرکے اپنامقصدحاصل کرنا چاہتاہے اس کے حصول مقصدکاراستہ بندہوجاتاہے اوربہت جلدخطرات میں گھرسکتاہے۔ (تحف العقول ص 24۔ کیاتم نہیں دیکھ رہے ہوکہ حق پرعمل نہیں ہورہاہے ،اورباطل سے دوری نہیں اختیارکی جا رہی ہے،ایسی صورت میں مومن کاحق ہے کہ لقائے الہی کی رغبت کرے۔(تحف العقول ص 245)‘‘۔ کربلا میں توحید کے پروانوں نے وہ دادِ شجاعت دی جو قیامت تک کوئی نہ دے سکے گا ۔ خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے ذبح ِ عظیم کے بارے میں ہی کہا تھا کہ ’’حقّا کہ بنائے لاالہ است حسین‘‘۔ امام عالی مقام ؓ کی نظر میں موت سعادت کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ ؓکا فرمان ہے کہ ’’ میں موت کوسعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کواذیت سمجھتا ہوں۔ (تحف العقول ص 245)۔ کربلا کے شہیدوں کو ہمارا سلام …دین پر مر مٹنے والوں کو ہمارا سلام …توحید کے رکھوالوں کو ہمارا سلام … لرزے نہیں ، تڑپے نہیں ، ثابت قدم رہے حسین ؓ کے لشکر میں یہ کیسے سوار تھے تَر کربلا کو کر گئے بچے رسول ؐ کے بھوکے رہے ، پیاسے رہے ، حق کی فرات تھے زینبؓ ذلیل کر گئی تخت ِ یزید کو نیزے پہ جو بلند ہوئے وہ اِمام ؓتھے اصغر تمہاری پیاس پہ کوثر بھی رو پڑی فوجِ یزید میں سبھی زر کے غلام تھے قاسم کے ٹکڑے دیکھ کے حیدر ؓ نے یہ کہا کربل کے سب شہید میرے ہمکلام تھے ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2013-11-11/6970
 
مدیر کی آخری تدوین:
نثار مصطفی ہوں پنجتن سے پیار کرتا ہوں
خزاں جس پر نہ آئے اس چمن سے پیار کرتا ہوں
عقیدہ منزل انسانیت میں کب ضروری ہے
میں ہندو ہوں مگر ایک بت شکن سے پیار کرتا ہوں(ایک ہندو شاعر کے اشعار)
 
Top