سلسلہ زیست کی اداؤں کا
کھیل جیسے ہو دھوپ چھاؤں کا
ناؤ ڈوبی تو ہوا معلوم
کیا ارادہ تھا ناخداؤں کا
خواہشوں کے چراغ جل نہ سکے
اس قدر زور تھا ہواؤں کا
تم سے خلقِ خدا بھی مانگے گی
کچھ حساب اِن کڑی سزاؤں کا
دوست شہروں کے ہو رہے سارے
کوئی ساتھی رہا نہ گاؤں کا
کرامت بخاری