جب فیصل نے باہر سے ایکسرے کروایا تو حیران رہ گیا اس کی تو ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی لیکن یہ پہلے ایکسرے میں کیوں نہیں آئی تھی ۔ پتہ نہیں جی کیا وجہ بنی لیکن یہ ہڈی تو آپ کی ٹوٹی ہوئی ہے اسے دوبارہ سے اس کی جگہ بٹھانا ہوگا اور یہ ہڈی ایسی ہے کہ بغیر آپریشن کے دوبارہ واپس اپنی جگہ نہیں بیٹھ سکتی وہ بھی اسے کچھ فائبر شائبر لگا کر ہک کر کے واپس بٹھانا پڑے گا ۔فیصل پریشان اور حیران کہ اللہ اب آپریشن کا خرچ کہاں سے لاؤں گا
ابھی تھوڑے دن پہلے ہی تو طلحہ کے سلسلے میں پرائیویٹ اسپتال والوں سے تیس ہزار کا پھٹکا کھا کر آیا تھا جو سکندر کو ابھی واپس دینا باقی تھا۔ دکان پر کام کے لئے بازو سلامت ہونا ضروری تھا ۔ کرائے کا مکان ہے ۔ کرائے کی دکان ۔ ساتھ تمام ذمہ داریاں کیسے پورا کرے ۔ شاگرد ابھی اتنا ہوا نہیں کہ پورا کام ٹھیک طرح سے کر سکے ۔سارا دن لگا کر ایک آدھ سوٹ پورا کرتا ہے ۔کاج کرانے جائے تو دو دو گھنٹے وہیں لگا آتا ہے ۔کیا کروں؟ کیا کروں انہی سوچوں میں غلطاں رات کو گھر پر لیٹا تو عنایہ پاس آکر بیٹھ گئی ۔
عنایہ : امی کہہ رہی تھیں کہ آپ پریشان نہ ہوں ۔ جیسے پہلے سارے مسئلے مسائل مل جل کر جھیل لیتے ہیں ۔ ان شاء اللہ اس آزمائش سے بھی ہم مل کر ہی نپٹ لیں گے۔
فیصل: ان شاء اللہ ۔ اللہ پاک خیر کرے گا ۔ کہیں تم نے اپنی امی سے کچھ مانگا تو نہیں؟
عنایہ : آپ سے کیسا جھوٹ؟ گھر کے حالات کا تو علم ہی ہے آپ کو ۔ پہلے ہی کھینچ تان کر گزارا ہوتا ہے تو امی کو اسی لئے فون کیا تھا ایک تو گیس اور بجلی کا بل آیا ہوا تھا دوسرے گھر میں راشن نہیں تھا تو کچھ ادھار وغیرہ لے کر وقت گزارا ہو سکے۔ ان شاء اللہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے تو پھر اتار دیں گے۔
فیصل : گھر میں فاقے تھوڑی ہو رہے تھے ؟۔ بندے میں اتنا صبر تو ہو تمہیں بھی مجھے ذلیل کروانا ہوتا ہے۔ اچھی طرح معلوم ہے تمہیں کہ میں پسند نہیں کرتا کہ ہمارے گھر کے مسائل کسی پر بوجھ بنیں ۔اور اپنے سسرال میں تو مجھے ویسے بھی اپنا پیٹ ننگا کرنا انتہائی نا پسند ہے ۔
عنایہ : اپنے سسرال سے ناپسند ہے تو بہن کے سسرال سے کیوں پسند کر لیا؟ وہاں عزت نفس نہیں تھی؟
فیصل : بکواس ناں کرو ، اب تم خود میری تذلیل کر رہی ہو۔
عنایہ : میں تذلیل نہیں کر رہی ۔ آپ ایسے ہر بات کو محسوس نہ کیا کریں ۔ میں تو صرف اتنا بتا رہی ہوں کہ وہ بھی اپنا ہی گھر ہے اپنے ہی لوگ ہیں ۔ اگر تھوڑی آزمائش ہے تو کیوں ناں ان کے تعاون سے اس وقت کو مل جل کر ٹال لیں گزار لیں ۔
فیصل : ایک میں یہاں معذور ہو کر پڑا ہوا ہوں ، دوسرے تم ہو کہ میرے جذبات کو سمجھتی ہی نہیں ہو۔
عنایہ : ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میں آپ کے جذبات کو سمجھتی نہیں لیکن میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ کوئی اور اس قابل ہے نہیں کہ ہماری مدد کر سکے اور جگہ جگہ پیٹ سے کپڑا اٹھائیں گے تو عزت اپنی ہی گھٹے گی ۔ اس کے علاوہ ہماری تنگی کا مسئلہ ہے ۔ آپ کے بہنوئی سے مدد مانگنا غلط تو نہیں لیکن کل کلاں کو آپ کی بہن کو کوئی بات کرے تو کیوں کرے؟
فیصل : ہاں بات تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو ۔ حیرت ہے میری سمجھ میں ایسا کیوں نہیں آیا
عنایہ : آپ تو شروع سے ہی ایسے ہیں تھوڑے جذباتی سے ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ جب آپ کو بات سمجھ آ جاتی ہے تو آپ ضد نہیں کرتے۔اچھا آپ نے ڈاکٹر اعجاز عبید کے پاس جانا تھا ۔ گئے؟
فیصل : ہاں گیا تھا ۔ ڈاکٹر اعجاز سے بات بھی ہوئی ہے۔ کہہ رہے تھے کہ آپریشن ہوگا پرائیویٹ میں کافی مہنگا پڑے گا تو کل جانا ہے سرکاری اسپتال کے او پی ڈی میں چیک کروانے اور ڈاکٹر سے مشورہ کرنے ۔ شاید کوئی جیک لگ جائے ۔
عنایہ : بات تو ٹھیک ہے ۔ تو کل طلحہ کو بھیجوں آپ کے ساتھ یا میں خود آؤں؟
فیصل: طلحہ کو جانے دو اسکول ، اور تم گھر دیکھو بل وغیرہ بھی ہیں ۔ ویسے بھی تم جانتی تو ہو سرکاری اسپتال میں کتنا وقت لگے پتہ نہیں ہوتا تو میں اکیلا ہو ہو آتا ہوں۔
عنایہ : اچھا میں چائے بنا لاتی ہوں پی لیں پھر دوا کھا کر سوجانا۔
فیصل : ہمم
----------------------------------------
صبح طلحہ کو سکول بھیج کر عنایہ نے فیصل کے لئے ناشتہ تیار کیا اور فیصل اس کے بعد رکشہ کرا کے گنگا رام اسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں پہنچ گیا ۔ بازو کی تکلیف ایسی تھی کہ بس یا ویگن میں سفر ممکن نہیں تھا ۔ سارے کاغذات اور ایکس رے فائلیں ساتھ لے کر آیا تھا ۔ کاؤنٹر سے شناختی کارڈ دکھا کر اور اپنامسئلہ بتا کر پرچی بنوائی تو وہاں سے اسے کمرہ نمبر 3 میں ڈاکٹر گلِ یاسمین کے پاس بھیج دیا گیا ۔فیصل بڑا خوش کہ واہ جی سیدھا سیدھا کام ہے ۔ کتنی جلدی ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا ہے ۔ میں ایسے ہی ڈر رہا تھا ۔ کہ پتہ نہیں کتنا وقت لگے گا۔ راہداری میں گزرتے ہوئے اپنے نظام اور حکومت سے بڑا خوش ہوا کہ واہ جی واہ ۔
کمرہ نمبر تین کے پاس پہنچا تو وہاں باہر کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے لیکن کمرے کا دروازہ بند تھا ۔ اور کوئی آتا جاتا نظر نہ آ رہا تھا ۔ فیصل خوش تھا کہ لو یہاں تو باری کا بھی مسئلہ نہیں ہوا ۔ جاتے ہی دروازہ دبایا تو کھلا تھا اندر جانے لگا تو کیا دیکھتا ہے کہ اندر کوئی بندہ نہ بشر ۔
شرمندہ ہو کر واپس راہداری میں دیکھا تو کرسیوں پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ ایک طرف بیٹھ گیا اور پرچی ہاتھ میں پکڑ لی ۔ بیٹھے بیٹھے انتظار کرنے والوں میں کافی سے زیادہ لوگ شامل تھے ۔ڈاکٹر صاحبہ کے آنے کا وقت دس بجے کا تھا لہذا اب اسے دس بجے تک انتظار کرنا ہی کرنا تھا ۔ بیٹھے بیٹھے نو بج گئے ۔ نیند سے آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں ۔ اچانک سب لوگ اٹھ کر دروازہ نمبر تین کی طرف دوڑے اور دروازہ نمبر تین پر دھکم پیل شروع ہو گئی ۔ فیصل نے اٹھ کر دروازے کی طرف جانا چاہا لیکن کندھے کے دکھ جانے کے ڈر سے وہ رک گیا ۔کہ ذرا رش کم ہو جائے تو جاتا ہوں ۔اتنے میں کمرے سے ایک آدمی نکلا اور لوگوں سے کہنے لگا۔۔۔ رکوذرا۔۔۔ صبر کرو ۔۔۔ بغیر باری کے کوئی اندر نہیں جائے گا ۔ اپنی اپنی پرچیاں مجھے دو جس جس کا نام لیتا جاؤں وہ اندر جاتا جائے ۔
یہ سنتے ہی سب لوگوں کے چہروں پر اوس پڑ گئی اور انہوں نے اپنی اپنی پرچیاں اس کے حوالے کر دیں۔ اور واپس اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔ فیصل بھی اٹھا اور اس نےا پنی پرچی اس کے حوالے کی واپس آیا تو اس کی کرسی پر کوئی اور بیٹھ چکا تھا ۔
فیصل : بھائی صاحب یہاں میں بیٹھا ہوا تھا۔
دوسرا مریض: تو؟
فیصل : بھائی میں پرچی پکڑانے گیا تھا۔
دوسرا مریض : فیر ؟
فیصل : یہ میری جگہ ہے مجھے یہاں بیٹھنے دو۔
دوسرا مریض : کیوں تم نے رجشٹری کرائی ہوئی ہے کرسی کی ؟ یاں فیر گھروں لے آئے ہو؟
فیصل : یار بھائی رجسٹری تو تم نے بھی نہیں کرائی ہوئی۔ بندہ کم از کم بندوں کی طرح بات تو کرتا ہے۔
دوسرا مریض : او باؤ ۔ بوہتا علامہ اقبال بننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیا ہوگیا ہے جو یہاں بیٹھ گیا ہوں ۔ جب دو گھنٹے سے کھڑا تھا تو کسی بندے کے پتر نے مجھے بیٹھنے کو نہیں پوچھا ۔ اب بیٹھ گیا ہوں تو کرسی کے مامے بنتے پھرتے ہیں ۔ جا ۔ جاکے کہیں کام کر۔
فیصل: او تمہیں بولنے کی تمیز نہیں ہے؟
دوسرا مریض : کیوں توں میرا پیو لگتا ہے کہ میں تیرے ساتھ تمیز سے بات کروں؟
فیصل : میں تمہارا منہ توڑ دوں گا۔
دوسرا مریض: ایک پاسے پہلے ہی لولا ہوا پھرتا ہے ۔ کہیں دوجے پاسیوں وی ناں ہو جائیں ۔ جا بابا جان چھڈ کتھوں چچڑ چمبڑ گیا میرے۔
فیصل : بکواس بند کرو ۔ تیری ایسی تیسی ۔ مادرزاد انسان
دوسرا مریض : (اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہلکا سا یوں دباؤ ڈالتا ہےکہ اس کی چیخ نکل گئی) چپ کر کے کھڑا رہو نہیں تو ڈاکٹر کے کمرے میں جانے جوگا نہیں چھوڑوں گا۔
فیصل گھبرا کر خاموش ہو جاتا ہے ۔
پندرہ بیس منٹ بعد دوسرے مریض کی باری آتی ہے اور وہ ڈاکٹر کے کمرے میں جا پہنچتا ہے جبکہ فیصل کی باری ابھی کافی دور ہے۔
لہذا وہ جلدی سے خالی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ۔ پانچ منٹ بعد وہی شخص باہر نکلتا ہے اور سیدھا جا کر اس کلرک کے پاس کھڑا ہو جاتا ہے ۔ جیب سے سگریٹ نکال کر اسے پیش کرتا ہے اور سرگوشی میں گویا ہوتا ہے ۔
دوسرا مریض: جی استاد جی سغٹ پیو گے؟ تھک گئے ہوگے۔ ادھر لوک بھی مت مار دیتے ہیں۔
کلرک : نہیں ویر جی ۔ کوئی لوڑ نئیں ۔ میں یہ والا سگریٹ نہیں پیتا۔
دوسرا مریض : چلو کوئی ناں بادشاہو ۔ یہ سو روپیہ رکھیں بچوں کے لئے کیلے شیلے لے لینا ۔
کلرک : نئیں جی یہ کیا تکلف ہے ۔ زیادہ ضد کرتے ہیں تو رکھ لیتا ہوں ویسے یہاں سب کو پتہ ہے میں نے کوئی رئی (بے ایمانی سے مدد) نہیں کی ۔
دوسرا مریض: لئو جی ۔ یہ کس نے کہہ دیا جی؟ میں تو بھائی کے اخلاق اور ایمانداری سے متاثر ہوا ہوں اس لئے ہی تو یہ شکرانہ پیش کر رہا ہوں ۔ نہیں تو آپ نے کوئی مجھے فے ور دی ہےَ؟
کلرک : نئیں جی میں تو آپ کا نام بھی نہیں جانتا۔
دوسرا مریض : اچھا ایک چھوٹی سی عرض تھی اگر جناب برا نہ مانیں تو؟
کلرک : آڈر لاؤ بھائی جان ۔
دوسرا مریض: وہ بندہ دیکھ رہے ہیں ۔ بازو ٹوٹے والا؟ لولا ۔۔ جو میرے ساتھ پنگا کرنے لگا تھا؟
کلرک : ہیں جی ، اوہ وہ ؟ ہاں جی
دوسرا مریض: اس کی آج باری ناں آنے پائے۔
کلرک: اوہ مطلب پرچی نکال پھینکوں؟ ۔ حکم کرو
دوسرا مریض : نئیں نئیں پتہ نئیں کیسا مسئلہ ہے۔وچارے کا۔ بس تھوڑی سزا دینی ہے اور سبق سکھانا ہے کہ اپون سے پنگا نئیں کرنے کا۔ پر یار ویکھ لئیں ڈاکٹر کو مل ضرور لے کدھرے رہ ای ناں جائے ۔
کلرک : لو جناب جیسے آپ کہو ویسے ہی ہوگا۔بس جناب ایک چھوٹی سی ریکوئیسٹ تھی۔
دوسرا مریض: ہا ہا ہا ہن آئے ناں لائن تے ۔ آڈر لاؤ باچھ چھاؤ (بادشاہو)۔
کلرک : جناب میرے بچے چار ہیں اور کیلے دوسو چالیس کے درجن ۔ اب سو میں تو ادھی درجن بھی نئیں آنی۔
دوسرا مریض : واہ وئی ۔ انگلی پھڑاؤ تے بندا بازو مانگتا ہے ۔ پر میں وی غصے کا پورا سؤر ہوں ۔ لو میرے آقا پانجا فٹ کرو سو کنجر کو
(اتنا کہہ کر پانچ سو کا نوٹ اس کے حوالے کر کے نکل جاتا ہے)۔
ادھر فیصل اس کرسی پر بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے ۔ اب کلرک آواز دیتا ہے کہ اب ۔ دس سے گیارہ اور گیارہ سے بارہ بج جاتے ہیں ۔ ایک کے بعد ایک مریض اپنی باری پر ڈاکٹر کے کمرے میں جارہے ہیں لیکن فیصل کی باری نہیں آتی ۔ڈیڑھ بجے کے قریب وہ کلرک سے پوچھتا ہے۔
فیصل : بھائی صاحب میری باری کب تک آ جائے گی؟
کلرک : جی دیکھیں اب کب تک آتی ہے ۔ یہ تو ڈاکٹر صاحب کی بات ہے ۔ آپ سے پہلے ابھی پندرہ بیس کے قریب باقی ہیں جن میں ڈاکٹر صاحب کی مصروفیت کے حساب سے ایک ایک دو دو کر کے بھی بھیج رہا ہوں ۔سو دعا کریں جی۔
فیصل : صحیح ۔ اچھا میرا ویر میں کچھ کھا پی آؤں؟ باہر سے؟
کلرک : جاؤ بادشاہو ! ٹینشن فری ہو کے جاؤ بس میری لئی ایک چھلی تے ادھی ڈبی کیپٹن لئی آنا۔
فیصل : حاضر جناب ۔ ہو ر حکم
کلرک : نئیں جناب ۔ کیا ہم کیا ہمارے حکم ۔ حکم صرف اللہ کا جی۔
فیصل وہاں سے نکلتا ہے باہر اور صفانوالہ چوک کی طرف نکلتے ہوئے مسجد اقصی کے باہر ایک ریڑھی والے سے نان چنے کھا کر واپس آجاتا ہے ۔ آتے ہوئے ڈبی کیپٹن سگریٹ اور ایک مکئی کا بھٹہ لے آتا ہے ۔ جو کلرک لے کر اسے بیٹھنے کا بول دیتا ہے اور ایک طرف سے آنکھ کا ہلکا سا اشارہ کر دیتا ہے کہ بس اب دیکھو میرا کمال ۔ اور واقعی کمال ہو جاتا ہے اور فیصل کی دس منٹ کے اندر اندر باری آ جاتی ہے ۔ اندر کمرے میں جاتا ہے تو سامنے ٹیبل کے پیچھے ڈاکٹر گلِ یاسمین بیٹھی ہوئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر سیما علی بیٹھی ہیں دونوں اس کے ایکسرے لے کر دیکھتی ہیں ۔
ڈاکٹر گل یاسمین ایکسرے کو دیکھتے ہی افسوس سے سر ہلاتی ہیں اور کہنے لگیں۔
زندہ رہنا جلتے رہنے کے برابر ہے مگر
زندگی اِک آگ ہے کندن بنا دیتی ہے آگ
ڈاکٹر سیما ہمیں تو لگتا ہے کہ ان صاحب کا کلے وی کل فریکچر ہے اور یہ کلاسی فائیڈ ہوگا گروپ ٹو ٹائپ ایل ایل اے سے مطلب ان کو ریکوری کے لئے چھے سے بارہ ہفتے لگ جائیں گے اور انہیں لوکل انیستھیزیا کے ساتھ مائنر سرجری کے ذریعے سپورٹس لگانی پڑیں گی جو دو سٹیجز میں چھے چھے ہفتے کے فرق سے لگائے جائیں گے ۔ ایسے میں ریکوری آہستہ ضرور ہوگی لیکن محفوظ رہے گی۔ آپ کی کیا رائے ہے اس سلسلے میں ۔
ڈاکٹر سیما علی : جی جی بالکل درست تشخیص ہے آپ کی ہم آپ کی تشخیص سے متفق ہیں تو پھر انہیں ریفر کر دوں ایڈمشن کے لئے ؟؟
ڈاکٹر گل یاسمین : (ڈاکٹر سیما سے ) جی ایسا ہی ہے۔ (فیصل کی طرف دیکھتے ہوئے) بھائی صاحب آپ کل دن میں آ جائیں کل ایک دو دن آپ کو وارڈ میں رکھیں گے پھر آپ کا چھوٹا سا اپریشن ہوگا ۔ آپ کا مسئلہ لمبا ہے اس مٰیں کافی وقت بھی لگے گا اور دو اپریشن ہونگے ایک اسے یہاں سے کٹ لگا کر اندر باندھ کر ہڈی جوڑنے کے لئے پلیٹیں لگیں گی دوسرا چھے ہفتے بعد وہ پلیٹیں نکالی جائیں گی ۔اس طرح آپ کا کندھا بالکل ٹھیک ہو جائے گا ان شاء اللہ۔
فیصل : میڈم ڈاکٹر صاحبہ جی پیسے کتنے کو لگ جائیں گے ۔ میں تو ایک معمولی سا درزی ہوں ۔ پیسہ لگا بھی سکوں گا کہ نہیں ۔
ڈاکٹر سیما علی : بھائی صاحب آپ پریشان نہ ہوں اس میں آپریشن ۔ اسپتال ۔ اور دواؤں کے اخراجات تو آپ کے صحت کارڈ پر ہو جائیں گے ۔ باقی رہ گئی بات پلیٹوں کی تو وہ آپ کو بازار سے خریدنی ہوں گی جو یہی کوئی دس بارہ ہزار کا کام ہے ۔ لیکن آپ پریشان نہ ہوں ہم آپ کو پیشنٹ ویلفیئر سے کچھ مدد امداد کروا دیں گے۔آپ ایسا کریں کل یہ پرچی لے کر وارڈ نمبر نو میں آ جائیں صبح آٹھ سے نو کے درمیان ۔ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔
جاری ہے۔۔