سلسلہ : غریب کی جورو ۔ بجلی والوں کا احوال

فیصل اپنی بیوی کے ساتھ مزنگ کے علاقے میں رہتا تھا ۔ صبح کے وقت میں نان چھولے کی ریڑھی لگا کر اپنا گزران کرتے فیصل کی زندگی بھی ایک عام پاکستانی کی طرح سے کچھ آسان نہیں تھی ۔ رات سے گھر میں محمودہ چنے پکانے بیٹھ جاتی جو صبح تک جا کے تیار ہوتے ۔ فیصل کی تین بیٹیاں عائزہ، سائرہ ، سحرش رات دیر تک سلاد بنانے میں ماں کا ہاتھ بٹاتیں ۔ کوفتے بنانے میں ماں خود قیمہ، پیاز،مرچیں مکس کر کے گھر پر قیمہ بناتی ۔ اس سب محنت کے بعد بمشکل گھر کا خرچ چلتا ۔ بجلی کے بل کم رکھنے کے لئے پورا گھر اپنی جگہ قربانی دیتا ۔ یہ سچ ہے کہ آج بھی معمولی کمائی والوں کے گھروں میں یو پی ایس کا وجود نہیں ہے - کیونکہ یہ مشہور ہے کہ جب یو پی ایس چارج ہوتا ہے تو بجلی کا بل زیادہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔ راقم بذات خود کچھ ایسے گھروں کو جانتا ہے ۔ جو نہ یو پی ایس استعمال کرتے ہیں نہ فریج یا ایئر کولر کا ان کے گھروں میں استعمال ہے ۔تو ہمارے فیصل کا گھر انہی گھروں میں سے ایک گھر ہے ۔ایک دن اس کی دکان پر ایک صاحب کھانا کھانے آگئے اور انہوں نے کھانا کھا نے کے دوران ہی اپنا تعارف کروا دیا کہ میں آپ کے علاقے کا نیا میٹر ریڈر ہوں ، منیر اور مجھے جاننے والے ملنگ کے نام سے جانتے ہیں ۔فیصل نے عام گاہکوں کی طرح اسے ڈیل کیا ، اس دن ملنگ اور فیصل کا یہ مکالمہ ہوتا ہے ۔

ملنگ : السلام علیکم بھائی جان

فیصل : وعلیکم السلام جی آیاں نوں ۔ جی سرکاراں بسم اللہ ۔ بیٹھو حکم لاؤ

ملنگ: جی برادر ، سنا ہے آپ کے چنے بہت اچھے ہیں سوچا آج ٹرائی کر دیکھتے ہیں۔

فیصل :بسم اللہ جی بسم اللہ جی جتنے مرضی آڈر لگاؤ صاحب جی

ملنگ : ایسا کریں دو نان اور ایک پیالہ چنے دیجئے ذرا بہترین سے کر کے اور ساتھ سلاد رائتہ بھی کر دیں۔

فیصل : حاضر جناب کوئی انڈہ ، کوفتہ ساتھ میں کرنا ہے کہ نہیں ؟

ملنگ: ایک کوفتہ اور ایک انڈہ بھی کر دو ۔

فیصل : چنے پیالے میں ڈال کر ، ایک کوفتہ اور انڈہ ساتھ میں ڈال کر ملنگ کو پیش کرتا ہے اور ساتھ ایک تازہ نان پیش کرتا ہے۔ جی صاحب جی بسم اللہ

ملنگ : (کھانا کھاتے ہوئے) میں اس علاقے کا نیا میٹر ریڈر ہوں ۔ کبھی کوئی کام شام ہو تو آڈر لگانا۔

فیصل : ہمیں کیا کام ہوگا سرکار ۔ آپ کے محکمے سے بتی پہلے ہی اتنی مہنگی ہے کہ ناں ناں کرتے تین چار ہزار بل آجاتا ہے ۔ صاحب لوگ ہیں آپ خود سمجھدار ہیں ہمارا ناں اے سی ، ناں کولر ، ناں فریج ناں کچھ۔ یہ پانی لیں ۔ کوئی بوتل شوتل پینی ہو تو بتائیں۔

ملنگ : (کھانا ختم کرتے ہوئے ) اچھا کتنے پیسے ہوئے۔اگر ہم سے بھی لینے ہیں تو ؟

فیصل: جی آپ کے ہوئے دو نان ۔ ساٹھ روپے ، پیالہ چنے ایک سو بیس ، ایک انڈہ چالیس ، ایک کوفتہ چالیس ۔ جی کل ملا کر دو سو ساٹھ روپے ہوئے ۔ صاحب جی روز کمانا، روز کھانا ، بچنا بچانا کھیہہ (خاک) ہے جی نالے پیسے ناں لینے والی کیا بات ہوئی ۔ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا۔

ملنگ : ہنستے ہوئے ، او یارا تو نراض ناں ہو ۔ لے پکڑ اپنے تین سو ، رہنے دے باقی تو بھی کیا یاد کرے گا ۔

فیصل : رب سلامت رکھے سرکار ۔ مولا اپنے جناب سے حلال میں برکت ڈالے۔

ملنگ : رب راکھا

فیصل : رب راکھا

اتنی بات ہونے کے بعد ملنگ وہاں سے چلا جاتا ہے ۔ اور فیصل اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ دس بارہ دن بعد اس کا بجلی کا بل آیا تو وہ دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ بجلی کا بل آٹھ ہزار پانچ سو آچکا تھا ۔
aaaaa.png


فیصل کی روح فنا ہو گئی ۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے نان چنے بیچے یا پھر بل جمع کرائے ۔ سارا دن رات کام کر کے جو بچتا تین بیٹیاں اور وہ دو میاں بیوی مل کر جو کماتے تھے وہ سب تو کرائے، گھر کے اخراجات اور بلوں میں نکل جاتا تھا ۔ اب اس ایٹمی حملے کا سامنا کیسے کریں ۔ اوپر سے بل کی آخری تاریخ سے ایک دن پہلے بل آیا تھا مطلب اتنا وقت ہی نہیں دیا گیا کہ وہ اپنا بل جمع کر کے دے سکے ۔ بل کی تاریخ سات تھی اور بل چھے تاریخ کو اس کے گھر پھینکا گیا تھا ۔ اگر سات تاریخ کو بل جمع نہ کرایا گیا تو اس پر چھے سو روپے جرمانہ لگتا اور بجلی بھی کٹ سکتی تھی ۔ایسے میں کسی گاہک نے اسے بتایا کہ تم بجلی کمپنی کے شکایات کے نمبر پر کال کر کے پوچھو کیا کیا جائے ۔ شاید کوئی حل نکل آئے ۔ اس نے ایزی لوڈ کی دکان سے فون میں پچاس روپے کا لوڈ ڈالا اور نمبر ملا دیا ۔
فون ملتے ہی آٹومیٹڈ آواز آئی ۔ لاہور الیکٹرک کمپنی میں کال کرنے کا شکریہ ۔ بجلی جانے کی شکایت کے لئے ایک دبائیں ، بجلی کے تار ٹوٹ جانے کی شکایت کے لئے دو ملائیں ، بجلی کا میٹر خراب ہونے یا جل جانے کی شکایت کے لئے تین دبائیں ، بجلی کا بل غلط یا زیادہ ہونے کی شکایت کے لیئے چار دبائیں ۔
فیصل نے چار دبا دیا ۔ اب کال میوزک چلنے لگا ، کم و بیش بارہ منٹ کے بعد ایک آپریٹر نے فون اٹھایا ۔ اس سے فیصل کا مندرجہ ذیل مکالمہ ہوتا ہے ۔
فیصل : السلام علیکم باجی جی
خاتون آپریٹر: وعلیکم السلام ، بلنگ کمپلینٹس سے سعدیہ بات کر رہی ہوں جی فرمائیے۔
فیصل : باجی جی میرا بل بہت زیادہ آیا ہے میں غریب آدمی ہوں کیا کروں کل آخری تریخ ہے ، اتنے پیسے کہاں سے لاؤں ، بڑی مہربانی ہوگی اگر کوئی دو چار دن زیادہ مل جائیں تو؟
سعدیہ: جی سر آپ مجھے اپنا کنزیومر نمبر دیں گے پلیز؟
فیصل : جی وہ تو مجھے پتہ نہیں ہے مہربانی کر کے بتائیں گی کہ یہ کہاں ہوتا ہے۔
سعدیہ : جی بل کے اوپر جہاں نام پتہ ہوتا ہے اس کے نیچے خانے بنے ہوئے ہیں ان میں سب سے پہلے الٹے ہاتھ پر ہوتا ہے ۔ مجھے نمبر دیں تاکہ میں دیکھ سکوں کیا مسئلہ ہے ۔
فیصل : جی لکھیں تیرہ - بیس - پینسٹھ ۔ بیالیس ، زیرو ، بانوے گیارہ۔
سعدیہ : جی آپ کی بل کی ادائیگی کی تاریخ تو آگے نہیں بڑھ سکتی۔
فیصل : باجی جی میں غریب آدمی ہوں ۔ نہ گھر میں کوئی فریج ، نہ اے سی ، نہ کوئی ہور چیز ، بتی جاتی ہے تو ہم سارے ہنیرے میں بیٹھے ہوتے ہیں ایک پکھا ہے گھر میں ایک بلب معاف مرنا پتہ ای نئیں اتنا بل کہاں سے آگیا ۔ میرا تو بل کبھی دو تین ہزار سے زیادہ نہیں آیا ۔ یہ اس بار ہی زیادہ آیا ہے ۔ مہربانی کردیں آپ کے ماں پیو کی خیرہو۔
سعدیہ: ایک منٹ مجھے دیکھنے دیں (لائن ہولڈ پر ڈال کر کہیں چلی جاتی ہے ۔ دس بارہ منٹ کے ہولڈ کے بعد واپس آتی ہے اور فیصل سے کچھ یوں گویا ہوتی ہے۔) جی بھائی آپ کا بل ٹھیک نہیں ہے آپ لیسکو ریونیوآفس سے اسے درست کروا کر جمع کروا سکتے ہیں ۔ آپ کے میٹر کی ریڈنگ 1041 تھی جبکہ میٹر ریڈر کی غلطی سے 1091 لکھی گئی ہے ۔ اس سے آپ کے یونٹس 200 سے زیادہ ہو گئے ہیں ۔تو بل کا ٹیرف بدل کر اس کی قیمت ساڑھے آٹھ ہزار ہو گئی ۔ آپ ایسا کریں کہ وہاں جا کر درخواست دیں وہ بل ٹھیک کر دیں گے ۔پھر آپ بل جمع کروا دیجئے گا ۔
فیصل: خوشی سے اپنے ناچتے ہوئے دل کو قابو کرتے ہوئے ۔ او زندہ باد میری بہن ۔ جیوندی رہو ، رب کریم کدی تنگی نہ دکھائے ، ہمیشہ خوش رہو ۔ بہن جی وہاں جا کر کسے ملوں۔
سعدیہ : میں آپ کی کمپلینٹ لکھ لیتی ہوں ہم یہاں سے انہیں بتا دیں گے آپ ایسا کریں لیسکو ریوینیو آفس جائیں وہاں اپنا بل دیں وہ درست کر دیں گے ۔
فیصل : جی بہتر بہن جی اللہ آپ کا بھلا کرے ۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہائے اللہ جی ۔۔۔ پھر بل کم ہوا بیچارے فیصل کا یا نہیں؟
بتائیے گا ضرور فیصل بھائی ورنہ ہمیں تو فکر لگی رہنی۔
 

سیما علی

لائبریرین
فیصل : جی لکھیں تیرہ - بیس - پینسٹھ ۔ بیالیس ، زیرو ، بانوے گیارہ۔
سعدیہ : جی آپ کی بل کی ادائیگی کی تاریخ تو آگے نہیں بڑھ سکتی۔
فیصل : باجی جی میں غریب آدمی ہوں ۔ نہ گھر میں کوئی فریج ، نہ اے سی ، نہ کوئی ہور چیز ، بتی جاتی ہے تو ہم سارے ہنیرے میں بیٹھے ہوتے ہیں ایک پکھا ہے گھر میں ایک بلب معاف مرنا پتہ ای نئیں اتنا بل کہاں سے آگیا ۔ میرا تو بل کبھی دو تین ہزار سے زیادہ نہیں آیا ۔ یہ اس بار ہی زیادہ آیا ہے ۔ مہربانی کردیں آپ کے ماں پیو کی خیرہو۔
سعدیہ: ایک منٹ مجھے دیکھنے دیں (لائن ہولڈ پر ڈال کر کہیں چلی جاتی ہے ۔ دس بارہ منٹ کے ہولڈ کے بعد واپس آتی ہے اور فیصل سے کچھ یوں گویا ہوتی ہے۔) جی بھائی آپ کا بل ٹھیک نہیں ہے آپ لیسکو ریونیوآفس سے اسے درست کروا کر جمع کروا سکتے ہیں ۔ آپ کے میٹر کی ریڈنگ 1041 تھی جبکہ میٹر ریڈر کی غلطی سے 1091 لکھی گئی ہے ۔ اس سے آپ کے یونٹس 200 سے زیادہ ہو گئے ہیں ۔تو بل کا ٹیرف بدل کر اس کی قیمت ساڑھے آٹھ ہزار ہو گئی ۔ آپ ایسا کریں کہ وہاں جا کر درخواست دیں وہ بل ٹھیک کر دیں گے ۔پھر آپ بل جمع کروا دیجئے گا ۔
بھیا ہماری جو مدد کے لئے بچی آتی ہے ۔۔اس نے شادی نہیں کی ہے چالیس سال کی ہے دونوں ماں بیٹی آگرہ تاج کالونی میں رہتی ہیں ۔۔۔اور صرف ایک پنکھا اور لائیٹ جلاتیں ہیں تع سات ہزار کا بل آتا ہے اتنا افسوس ہوتا ہے دو سو روپے کیرایہ خرچ کرکے آتی ہے اگر تین گھر کام نہ کرے تو کیسے پورا کرے ۔۔۔🥲🥲🥲🥲🥲🥲
 

زیک

مسافر
ابھی بجلی کا بل ہی دیکھ رہا تھا۔ کل مہینے کے ہزار یونٹ بنے۔ سنٹرل ائر کنڈشنگ بھی ہے۔ پاکستان میں اتنی بجلی کیسے خرچ ہوتی ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ابھی بجلی کا بل ہی دیکھ رہا تھا۔ کل مہینے کے ہزار یونٹ بنے۔ سنٹرل ائر کنڈشنگ بھی ہے۔ پاکستان میں اتنی بجلی کیسے خرچ ہوتی ہے؟
یہ ریڈنگ فرضی لگ رہی ہے یا ایک ماہ کی نہیں ۔
میری کنزمشن 350 ماہانہ رہی یونٹ رہی پچھلے تین چار ماہ میں بغیر اے سی کے ۔
 
فیصل اپنی بیوی کے ساتھ مزنگ کے علاقے میں رہتا تھا ۔ صبح کے وقت میں نان چھولے کی ریڑھی لگا کر اپنا گزران کرتے فیصل کی زندگی بھی ایک عام پاکستانی کی طرح سے کچھ آسان نہیں تھی ۔ رات سے گھر میں محمودہ چنے پکانے بیٹھ جاتی جو صبح تک جا کے تیار ہوتے ۔ فیصل کی تین بیٹیاں عائزہ، سائرہ ، سحرش رات دیر تک سلاد بنانے میں ماں کا ہاتھ بٹاتیں ۔ کوفتے بنانے میں ماں خود قیمہ، پیاز،مرچیں مکس کر کے گھر پر قیمہ بناتی ۔ اس سب محنت کے بعد بمشکل گھر کا خرچ چلتا ۔ بجلی کے بل کم رکھنے کے لئے پورا گھر اپنی جگہ قربانی دیتا ۔ یہ سچ ہے کہ آج بھی معمولی کمائی والوں کے گھروں میں یو پی ایس کا وجود نہیں ہے - کیونکہ یہ مشہور ہے کہ جب یو پی ایس چارج ہوتا ہے تو بجلی کا بل زیادہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔ راقم بذات خود کچھ ایسے گھروں کو جانتا ہے ۔ جو نہ یو پی ایس استعمال کرتے ہیں نہ فریج یا ایئر کولر کا ان کے گھروں میں استعمال ہے ۔تو ہمارے فیصل کا گھر انہی گھروں میں سے ایک گھر ہے ۔ایک دن اس کی دکان پر ایک صاحب کھانا کھانے آگئے اور انہوں نے کھانا کھا نے کے دوران ہی اپنا تعارف کروا دیا کہ میں آپ کے علاقے کا نیا میٹر ریڈر ہوں ، منیر اور مجھے جاننے والے ملنگ کے نام سے جانتے ہیں ۔فیصل نے عام گاہکوں کی طرح اسے ڈیل کیا ، اس دن ملنگ اور فیصل کا یہ مکالمہ ہوتا ہے ۔

ملنگ : السلام علیکم بھائی جان

فیصل : وعلیکم السلام جی آیاں نوں ۔ جی سرکاراں بسم اللہ ۔ بیٹھو حکم لاؤ

ملنگ: جی برادر ، سنا ہے آپ کے چنے بہت اچھے ہیں سوچا آج ٹرائی کر دیکھتے ہیں۔

فیصل :بسم اللہ جی بسم اللہ جی جتنے مرضی آڈر لگاؤ صاحب جی

ملنگ : ایسا کریں دو نان اور ایک پیالہ چنے دیجئے ذرا بہترین سے کر کے اور ساتھ سلاد رائتہ بھی کر دیں۔

فیصل : حاضر جناب کوئی انڈہ ، کوفتہ ساتھ میں کرنا ہے کہ نہیں ؟

ملنگ: ایک کوفتہ اور ایک انڈہ بھی کر دو ۔

فیصل : چنے پیالے میں ڈال کر ، ایک کوفتہ اور انڈہ ساتھ میں ڈال کر ملنگ کو پیش کرتا ہے اور ساتھ ایک تازہ نان پیش کرتا ہے۔ جی صاحب جی بسم اللہ

ملنگ : (کھانا کھاتے ہوئے) میں اس علاقے کا نیا میٹر ریڈر ہوں ۔ کبھی کوئی کام شام ہو تو آڈر لگانا۔

فیصل : ہمیں کیا کام ہوگا سرکار ۔ آپ کے محکمے سے بتی پہلے ہی اتنی مہنگی ہے کہ ناں ناں کرتے تین چار ہزار بل آجاتا ہے ۔ صاحب لوگ ہیں آپ خود سمجھدار ہیں ہمارا ناں اے سی ، ناں کولر ، ناں فریج ناں کچھ۔ یہ پانی لیں ۔ کوئی بوتل شوتل پینی ہو تو بتائیں۔

ملنگ : (کھانا ختم کرتے ہوئے ) اچھا کتنے پیسے ہوئے۔اگر ہم سے بھی لینے ہیں تو ؟

فیصل: جی آپ کے ہوئے دو نان ۔ ساٹھ روپے ، پیالہ چنے ایک سو بیس ، ایک انڈہ چالیس ، ایک کوفتہ چالیس ۔ جی کل ملا کر دو سو ساٹھ روپے ہوئے ۔ صاحب جی روز کمانا، روز کھانا ، بچنا بچانا کھیہہ (خاک) ہے جی نالے پیسے ناں لینے والی کیا بات ہوئی ۔ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا۔

ملنگ : ہنستے ہوئے ، او یارا تو نراض ناں ہو ۔ لے پکڑ اپنے تین سو ، رہنے دے باقی تو بھی کیا یاد کرے گا ۔

فیصل : رب سلامت رکھے سرکار ۔ مولا اپنے جناب سے حلال میں برکت ڈالے۔

ملنگ : رب راکھا

فیصل : رب راکھا

اتنی بات ہونے کے بعد ملنگ وہاں سے چلا جاتا ہے ۔ اور فیصل اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ دس بارہ دن بعد اس کا بجلی کا بل آیا تو وہ دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ بجلی کا بل آٹھ ہزار پانچ سو آچکا تھا ۔
aaaaa.png


فیصل کی روح فنا ہو گئی ۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے نان چنے بیچے یا پھر بل جمع کرائے ۔ سارا دن رات کام کر کے جو بچتا تین بیٹیاں اور وہ دو میاں بیوی مل کر جو کماتے تھے وہ سب تو کرائے، گھر کے اخراجات اور بلوں میں نکل جاتا تھا ۔ اب اس ایٹمی حملے کا سامنا کیسے کریں ۔ اوپر سے بل کی آخری تاریخ سے ایک دن پہلے بل آیا تھا مطلب اتنا وقت ہی نہیں دیا گیا کہ وہ اپنا بل جمع کر کے دے سکے ۔ بل کی تاریخ سات تھی اور بل چھے تاریخ کو اس کے گھر پھینکا گیا تھا ۔ اگر سات تاریخ کو بل جمع نہ کرایا گیا تو اس پر چھے سو روپے جرمانہ لگتا اور بجلی بھی کٹ سکتی تھی ۔ایسے میں کسی گاہک نے اسے بتایا کہ تم بجلی کمپنی کے شکایات کے نمبر پر کال کر کے پوچھو کیا کیا جائے ۔ شاید کوئی حل نکل آئے ۔ اس نے ایزی لوڈ کی دکان سے فون میں پچاس روپے کا لوڈ ڈالا اور نمبر ملا دیا ۔
فون ملتے ہی آٹومیٹڈ آواز آئی ۔ لاہور الیکٹرک کمپنی میں کال کرنے کا شکریہ ۔ بجلی جانے کی شکایت کے لئے ایک دبائیں ، بجلی کے تار ٹوٹ جانے کی شکایت کے لئے دو ملائیں ، بجلی کا میٹر خراب ہونے یا جل جانے کی شکایت کے لئے تین دبائیں ، بجلی کا بل غلط یا زیادہ ہونے کی شکایت کے لیئے چار دبائیں ۔
فیصل نے چار دبا دیا ۔ اب کال میوزک چلنے لگا ، کم و بیش بارہ منٹ کے بعد ایک آپریٹر نے فون اٹھایا ۔ اس سے فیصل کا مندرجہ ذیل مکالمہ ہوتا ہے ۔
فیصل : السلام علیکم باجی جی
خاتون آپریٹر: وعلیکم السلام ، بلنگ کمپلینٹس سے سعدیہ بات کر رہی ہوں جی فرمائیے۔
فیصل : باجی جی میرا بل بہت زیادہ آیا ہے میں غریب آدمی ہوں کیا کروں کل آخری تریخ ہے ، اتنے پیسے کہاں سے لاؤں ، بڑی مہربانی ہوگی اگر کوئی دو چار دن زیادہ مل جائیں تو؟
سعدیہ: جی سر آپ مجھے اپنا کنزیومر نمبر دیں گے پلیز؟
فیصل : جی وہ تو مجھے پتہ نہیں ہے مہربانی کر کے بتائیں گی کہ یہ کہاں ہوتا ہے۔
سعدیہ : جی بل کے اوپر جہاں نام پتہ ہوتا ہے اس کے نیچے خانے بنے ہوئے ہیں ان میں سب سے پہلے الٹے ہاتھ پر ہوتا ہے ۔ مجھے نمبر دیں تاکہ میں دیکھ سکوں کیا مسئلہ ہے ۔
فیصل : جی لکھیں تیرہ - بیس - پینسٹھ ۔ بیالیس ، زیرو ، بانوے گیارہ۔
سعدیہ : جی آپ کی بل کی ادائیگی کی تاریخ تو آگے نہیں بڑھ سکتی۔
فیصل : باجی جی میں غریب آدمی ہوں ۔ نہ گھر میں کوئی فریج ، نہ اے سی ، نہ کوئی ہور چیز ، بتی جاتی ہے تو ہم سارے ہنیرے میں بیٹھے ہوتے ہیں ایک پکھا ہے گھر میں ایک بلب معاف مرنا پتہ ای نئیں اتنا بل کہاں سے آگیا ۔ میرا تو بل کبھی دو تین ہزار سے زیادہ نہیں آیا ۔ یہ اس بار ہی زیادہ آیا ہے ۔ مہربانی کردیں آپ کے ماں پیو کی خیرہو۔
سعدیہ: ایک منٹ مجھے دیکھنے دیں (لائن ہولڈ پر ڈال کر کہیں چلی جاتی ہے ۔ دس بارہ منٹ کے ہولڈ کے بعد واپس آتی ہے اور فیصل سے کچھ یوں گویا ہوتی ہے۔) جی بھائی آپ کا بل ٹھیک نہیں ہے آپ لیسکو ریونیوآفس سے اسے درست کروا کر جمع کروا سکتے ہیں ۔ آپ کے میٹر کی ریڈنگ 1041 تھی جبکہ میٹر ریڈر کی غلطی سے 1091 لکھی گئی ہے ۔ اس سے آپ کے یونٹس 200 سے زیادہ ہو گئے ہیں ۔تو بل کا ٹیرف بدل کر اس کی قیمت ساڑھے آٹھ ہزار ہو گئی ۔ آپ ایسا کریں کہ وہاں جا کر درخواست دیں وہ بل ٹھیک کر دیں گے ۔پھر آپ بل جمع کروا دیجئے گا ۔
فیصل: خوشی سے اپنے ناچتے ہوئے دل کو قابو کرتے ہوئے ۔ او زندہ باد میری بہن ۔ جیوندی رہو ، رب کریم کدی تنگی نہ دکھائے ، ہمیشہ خوش رہو ۔ بہن جی وہاں جا کر کسے ملوں۔
سعدیہ : میں آپ کی کمپلینٹ لکھ لیتی ہوں ہم یہاں سے انہیں بتا دیں گے آپ ایسا کریں لیسکو ریوینیو آفس جائیں وہاں اپنا بل دیں وہ درست کر دیں گے ۔
فیصل : جی بہتر بہن جی اللہ آپ کا بھلا کرے ۔
فیصل دکان پر بیٹھا سوچ رہا تھا ۔ میٹر کی فوٹو اتار کر لے جاتے ہیں پھر فوٹو دیکھ کر غلطی کیسے ہو گئی ۔ اللہ جانے ہو گئی ہوگی ۔ بیچارہ دو تین سو میٹروں کی ریڈنگ لیتا ہے کوئی ایک آدھ غلط ہو گیا ہوگا۔ چلو کوئی ناں باجی جی نے بتایا تو ہے کہ میں ادھر سے کر دیتی ہوں تم جا کر بل ٹھیک کروا لینا اللہ بھلا کرے کتنی اچھی بہن ہے ۔ اللہ کرے اسے کوئی دکھ ناں ہو ۔ اللہ ہمیشہ خوش رکھے اسے ۔ اب تین بجے کے قریب سامان ختم ہو گیا تو فیصل کو سامان لینے عبداللہ کی دکان پر جانا تھا ۔ اس نے سوچا کہ چلو پہلے بل ٹھیک کروا لاؤں پھر جمع کروا کے سامان لے آؤں گا ۔ دکان سے نکلا تو سیدھا جاوید بھائی ماڈرن بک سنٹر والے کے پاس پہنچا ۔

فیصل : السلام علیکم جاوید بھائی کیسے ہیں؟

جاوید بھائی: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ کرم مولا کا ۔ سناوئی بھا ئی فیصلے آ ۔ کیسا ہے یارا۔

فیصل : شکر مالک کا جی ۔ اچھا پائی جان ۔ سرکاراں ایک کام پڑ گیا ہے آپ جی سے۔

جاوید بھائی: لے وئی یہ کیا بات ہوئی ۔ آرڈر لگا میرا ویر ۔ کیا کام ہے؟

فیصل : او بھائی جان گل کجھ ایسطراں ہے کہ میرا بتی کا بل ایس واری کافی زیادہ آگیا ہے ۔ بجلی کے محکمے فون کیا تھا ۔ انہوں نے بڑی مہربانی کر دتی ہے ۔ بی بی جی نے آکھیا ہے کہ جا سیدھا ہمارے دفتر چلا جا وہ بل ٹھیک کر دیں گے ۔ تو وہ پوچھنا یہ تھا کہ یہ بل ٹھیک کرنے والا دفتر کدھر ہے ۔ تاں کے میں بل ٹھیک کروا لوں اور اسے جمع کروا ہی دوں ۔

جاوید بھائی: اچھا اچھا ۔ ہاں انہوں نے بتایا کون سے دفتر جانا ہے؟ ایس ڈی او کے دفتر کہ ایکس ای این کے دفتر کہ ریونیو دفتر جانا ہے؟

فیصل : اوہ جی مجھے یاد آیا یہ اینڈ والا دفتر بتا رہے تھے
جاوید بھائی: اچھا اچھا یہ دفتر تو جو سڑک فرید کوٹ ہاؤس سے جین مندر کی طرف جاتی ہے وہاں پر ہے۔ چھیتی چلا جائیں چار پنج وجے دفتر یہ بند ہو جاتا ہے ۔ یہ میری سیکل لے جا۔

فیصل : بڑی مہربانی جاوید بھائی ۔ اللہ تجھ پر اپنا کرم کردے ۔ جیوندا رہو ۔

جاوید بھائی: او جا یارا ۔ چھیتی نکل

فیصل سائیکل پکڑ کر سیدھا اس دفتر پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دفتر یہاں سے شادمان منتقل ہو چکا ہے ۔ پوچھا تو وہاں کسی نے بتایا کہ یہ دفتر پاگل خانے کے بالکل ساتھ ہی ہے۔ شادمان کافی دور ہے تو اس نے سائیکل جاوید بھائی کو واپس دی اور سیدھا رکشہ کروا لیا کہ وقت کی بچت ہو جائے اور کام ہو جائے۔ رکشے والے سے آنے جانے کا ہزار روپیہ طے ہوا اور وہ اور رکشے والا دونوں نکلے شادمان میں پاگل خانے کے پاس بجلی دفتر کی طرف ۔ پاگل خانے کے پاس پہنچے تو پتہ چلا دفتر تو وہاں نہیں تھا بلکہ دو گلیاں چھوڑ کے بوہڑ والے درخت کے ساتھ ہی تھا ۔ رکشے والا بیچارا اسے لے کر وہاں پہنچا تو وہ تو کسی این پی سی سی یعنی نیشنل پاور پروڈکشن کمپنی کا دفتر تھا اور انہیں کچھ علم نہیں تھا کہ لیسکو کا دفتر کہاں ہے ۔ اب پھر مصیبت پڑ گئی ۔ کبھی اس سے پوچھیں کبھی اوس سے آخر دماغ میں بات پڑی کہ پولیس والے سے پوچھتے ہیں ۔ انہیں پھرتے پھرتے نہر کنارے والی پولیس چوکی پر ایک پولیس والا اور ایک کچرا اٹھانے والا نظر آئے ۔ پولیس والے کو پوچھا تو اسے خود کچھ پتہ نہیں تھا۔ اس نے میونسپلٹی کے کچرا اٹھانے والے کی طرف اشارہ کر دیا کہ اسے پوچھو شاید اسے کچھ پتہ ہو۔ اسے پوچھا تو اس نے سامنے چائے والے ہوٹل کی طرف اشارہ کیا کہ وہ سامنے ہوٹل کے پاس جو بندہ بیٹھا ہے نیلے کپڑوں والا وہ ہمارا دروغہ ہے میونسپلٹی کا اسے پوچھ لیں۔ وہ دروغہ ہے اسی علاقے کا تو وہ بہتر بتا سکے گا۔ اب ان صاحب سے مکالمہ ہوتا ہے۔

فیصل سیدھا ان صاحب کے پاس گیا ۔ جو چائے کا گھونٹ اور سگریٹ کا کش یکے بعد دیگرے لگا رہے تھے۔ السلام علیکم پائی جان ۔ ایہہ تھوڑا مہر بانی کروگے ۔ یہ بجلی کے محکمے کا دفتر کدھر ہے۔ جدھر سے بل ٹھیک ہوتے ہیں ۔

دروغہ: وآلیکم السلام ۔ جی جنابے عالی وہ تو یہاں سے دو کلومیٹر دور شادمان مارکیٹ کے پاس ہے۔ آپ ایدھر کدھر رلتے پھر رہے ہو ۔

فیصل : جی پائی جان وہ ہم مزنگ سے آئے ہیں ۔ وہاں سے دفتر ادھر کہیں آگیا ہے ۔ ہمیں کسی نے بتایا تھا کہ یہ پاگل خانے کے پاس ہی ہے ۔ پر ہمیں ملا نہیں ۔ جے۔ کر آپ مہربانی کردیں تو بڑے شکرگزار ہوں گے ۔

دروغہ : اچھا آپ یہاں سے واپس جائیں پاگل خانے کے دروازے کے پاس وہاں سے رائیٹ لے لینا ۔ کوئی ایک کلومیٹر آگے جا کر قبرستان آئے گا وہاں سے پھر رائٹ لے لینا ۔ تھوڑا آگے جاؤ گے تو گندے نالے کے پاس ہوگا یہ دفتر۔

فیصل نے یہ سارا ماجرا رکشہ ڈرائیور کو بتایا کہ بھائی سارا ایڈریس سمجھ لوگے تو ہی ہم پہنچتے نظر آتے ہیں ۔ رکشے والے نے ایڈریس سمجھا اور فیصل کو اس دفتر پہنچا دیا ۔ اب فیصل اتر کر سیدھا اندر گیا اور اپنا بل دکھا کر انہیں بتانے لگا کہ کیا مسئلہ ہے اور اسے یہاں کا بتایا گیا ہے۔ وہاں کاؤنٹر پر بیٹھے بندے نے اسے بتایا کہ بھائی جان ہمارے پاس بل ٹھیک ضرور ہوتے ہیں مگر پہلے ایس ڈی او کے دفتر سے لیٹر لانا ہوتا ہے جو بیگم روڈ کے پاس والے دفتر سے ملے گا ۔ آپ سیدھے ادھر چلے جائیں اور لیٹر لے آئیں ہم اسی وقت بل ٹھیک کر دیں گے ۔یہ سنتے ہی دونوں بھاگے وہاں سے بیگم روڈ والے ایس ڈی او آفس کی طرف ۔ قسمت اچھی تھی کہ رکشہ والا اس جگہ کو جانتا تھا ۔ سیدھا ادھر لے کر پہنچا پونے پانچ کا وقت تھا لیکن وہاں رش لگا ہوا تھا ۔ دفتر کے اندر گیا تو استقبالیہ کلرک نکل چکا تھا ۔ ایک بندے کو پوچھا تو اس نے کہا کہ لیٹر تو بن جائے گا تمہارے میٹر کی فوٹو تو اتار کر لاؤ ۔ اب فیصل کو سمجھ آگئی تھی کہ سرکاری دفتروں سے کام کیوں جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے سر جھکائے وہاں سے رکشے میں بیٹھ کر سیدھا گھر پہنچا ۔ اور رکشے والے کو ہزار روپیہ دینے لگا تو اس نے بائیس سو کا مطالبہ کر دیا۔ کیونکہ دفتر ڈھونڈنا اس سلسلے میں گھومتے رہنا اور پھر واپس بیگم روڈ دفتر اور وہاں سے گھر واپسی درست طور پر زیادہ پیسے بنتے تھے ۔ منت ترلا کر کے رکشے والے کو اٹھارہ سو میں راضی کیا اور پیسے دے کر روانہ کیا۔ گھر میں گھستے ہی ۔محمودہ کی آواز کانوں تک پہنچی ۔

محمودہ: خیریت تو ہے منہ بنا ہوا ہے ۔کیا ہوگیا؟

فیصل : ہاں خیر ہی ہے ۔ یہ بل اتنا زیادہ آگیا ہے اسے ٹھیک کروانے گیا تھا وہ لوگ میٹر کی فوٹو مانگتے ہیں اب میں کدھر سے فوٹو لاؤں؟

محمودہ:- لیں پہلے پانی پیئیں ۔ میں دیکھتی ہوں ساتھ والے گھر میں باجی ذکیہ کے پاس کیمرے والا فون ہے اس میں فوٹو اتروا کر رؤوف ایزی لوڈ والے کے پاس سے اس کا پرنٹ کروا لینا ۔ کل سویرے دفتر لے جانا اور بل ٹھیک کروا لینا ۔ یہ سب میں دیکھ لیتی ہوں آپ نہا کر فریش ہو جائیں اور کھانا کھا لیں کیا پسینے اور میل سے لشک رہے ہیں ۔ ایک سوہنے رج کے اتوں صاف ستھرے ۔

فیصل منہ بسورتا ہوا اٹھ کر نہانے چلا جاتا ہے اور محمودہ ، عائزہ کو باپ کا کھانا لگانے کا کہہ کر ذکیہ کے گھر سے فون لینے چلی جاتی ہے ۔

جاری ہے ۔۔۔
 
کھانا کھاتے ہوئے فیصل صبح کی منصوبہ بندی کر رہا تھا ۔ ذکیہ کے موبائیل پر محمودہ نے میٹر کی فوٹو اتار لی تھی اور اسے بھاگ کر نبیل ایزی لوڈ والے کی دکان سے پرنٹ کروا لائی تھی ۔ اس فوٹو میں یونٹس کی تعداد گیارہ سو گیارہ نظر آرہی تھی ۔ فیصل نے وہ فوٹو پرنٹ سنبھال لیا اور جا کر جلدی سے عبد اللہ کی دکان سے سامان لے آیا ۔ ہزار روپے کا ادھار کر کے سامان لاکر محمودہ کو دیا۔ آج دن بھر کی محنت کے بعد جو کمایا تھا وہ سب لگ چکا تھا بلکہ راس مال میں سے بھی کمی ہو گئی تھی ۔ بھلا ہو محمودہ کا کہ گھر میں کچھ نہ کچھ بنا کر رکھتی تھی ۔ اب مال تیاری پر لگوا کر فیصل سو گیا ۔

دوسرے دن صبح دوکان سے فارغ ہوتے ہوتے گیارہ بج گئے تھے اور آج سات تاریخ تھی ۔ بل کی آخری تاریخ ۔ فیصل نے جاوید بھائی سے سائیکل کی اور سیدھا بیگم روڈ پر لیسکو کے دفتر جا پہنچا ۔ وہاں کیا دیکھتا ہے کہ پچاس ساٹھ بندے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ سیدھا بل والے سیکشن میں گیا تو وہاں جو صاحب بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اسے لائن میں لگنے کا کہا ۔ آخر گھنٹہ ڈیڑھ بعد جب باری آئی تو ڈیوٹی کلرک نے کہا

کلرک : اوئے ویر جی ۔ یہ بل کم نہیں ہوگا بلکہ زیادہ ہو جائے گا ۔
فیصل: ہیں جی؟ جناب مجھے تو ٹیلی فون والی باجی نے کہا۔ تھا کہ تمہاری میٹر کی فوٹو میں ریڈنگ الگ ہے اور میٹر میں الگ ہے ۔
کلرک : اچھا؟ ایسے کرو انٹرنیٹ کیفے پر جاؤ اور اس سے آن لائن بل کے میٹر کی کلیئر فوٹو لے آؤ کام چل جائے گا۔
فیصل : اچھا جی سرکار ۔ یہ بات ہونے کے بعد فیصل نکل ہی رہا تھا کہ اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا۔ دیکھا تو ملنگ میٹر ریڈر تھا

ملنگ : جی میاں جی ۔ کیا حال چال ہیں؟ ادھر کدھر؟

فیصل : جناب آپ کی مہربانی ہے ۔ اور کیا ہو سکتا ہے ۔ میٹر پر ریڈنگ کم تھی بل میں زیادہ بھیج دی اب کل سے بھاگ دوڑ کر رہا ہوں ۔ دعا کریں آج کسی طرح بل ٹھیک ہو جائے ۔

ملنگ : جی جی بالکل جی ۔ بڑے نلائق ہیں یہ بجلی والے بھی۔ کہو تو میں کروا دوں ۔ آپ کے پاس تو بندہ دو کلچے کھانے بیٹھ جائے تو گھوڑا ، گھاس ، دوستی وغیرہ سنانے بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہ ہمارا ہی ظرف ہے کہ اس بدتمیزی کے بعد بھی آپ کا مسئلہ حل کروانے کے لیئے تیار ہیں
ہیں۔

فیصل: مطلب میں کم ظرف ہوں۔ بے عزتا ہوں ۔ تمہیں مفت کھلاؤں تو ٹھیک اگر پیسے مانگ لوں تو تم جگہ جگہ مجھے ذلیل کروگے؟ کیا غلط کیا تھا ۔ بھائی کھایا تھا تو پیسے دیتے کیوں تکلیف ہوئی؟

ملنگ: ناں جناب ایسا کس نے کہا؟ میں نے تو ایسے ہی بات کی تھی ۔ ویسے بھی سرکاری نوکر تو سرکار کا جوائی ہوتا ہے اسے کون پوچھتا ہے ۔ آپ تو جی عوام ہو آپ کے ٹیکسوں پر ہم پل رہے ہیں تو آپ کو سلوٹ ہے جی ۔ ابھی مجھے اجازت دیں میں نے کسی کام سے جانا ہے ۔آپ خود ہی اپنا مسئلہ دیکھیں ہم کیا ہماری اوقات کیا؟

فیصل وہاں سے نکل کر سیدھا انٹر نیٹ کیفے والے کے پاس گیا ۔ بجلی کا بل کھلوایا تو واقعی فوٹو میں ریڈنگ 1041 تھی جبکہ بل میں ریڈنگ 1091 تھی مطلب پچاس یونٹ کا فرق اور صرف اس فرق سے بل تین گنا ہو چکا تھا۔ پرنٹ نکلوا کر واپس پہنچا اور دوبارہ لائن میں لگ کر کلرک کے پاس پہنچا جس نے نئی فوٹو دیکھ کر اسے ایک لیٹر بنا کر دے دیا ۔ یہ لیٹر بھی پہلے سے پرنٹڈ بنڈل میں سے نکالا اب اس کے ساتھ بل اٹیچ کیا اور فوٹو اٹیچ کی اور اسے کہا جاؤ جا کر ایس ڈی او صاحب سے سائن کروا لو ۔

ایس ڈی او صاحب کے دفتر کے باہر اور بھی سائلین بیٹھے ہوئے تھے ۔ اپنی باری کے انتظار میں وقت تھا کہ پر لگا کر اڑ رہا تھا ۔ کوئی گھنٹے بھر کے بعد اس کی باری آئی تو ایس ڈی او نے اس کے لیٹر پر دستخط کر دیئے ۔ اور فیصل میاں وہاں سے پھر ریونیو آفس کی طرف نکل پڑے ۔ وہاں پہنچ کر متعلقہ افسر کا پتہ کیا تو جناب ایمرجنسی میں دس منٹ پہلے ہی کہیں نکل کر گئے تھے اور واپسی کا کوئی پتہ نہیں تھا ۔ دوسرے تیسرے کسی افسر کا پتہ کیا تو پتہ چلا کہ جناب محمود صاحب کے علاوہ کوئی بھی اس کام کا مجاز نہیں ہے کیونکہ ہر ایریا کا بلنگ کلرک اور ہوتا ہے ۔ بیٹھ بیٹھ کر پانچ بج گئے اور فیصل میاں پھر واپس گھر کا رخ کرتے ہیں ۔ باہر نکلے تو دھک سے رہ گئے ۔ جاوید بھائی کی سائیکل کوئی چور اچکا اٹھا کر لے جا چکا تھا اور فیصل میاں پھر پریشان ۔ ون فائیو پر فون کیا تو انہوں نے تھانہ شادمان جانے کا کہا لہذا اب تھانہ شادمان جانا تھا رکشہ کروایا اور تھانے پہنچ کر رپٹ کرائی ۔ دوسرا رکشہ کرایا اور سیدھا جاوید بھائی کے پاس جا کر ان کی چوری کا بتایا ۔ اور انہیں نئی سائیکل قسطوں پر خرید کر دینے کے بعد اپنے گھر واپس پہنچا۔ آج پھر سے کم و بیش چھے ہزار خرچ ہو گئے تھے ہزار روپیہ رکشوں پر اور پانچ ہزار سائیکل کا ایڈوانس ۔ مہینے کی قسط الگ سے تھی دو ہزار ماہانہ ایک سال تک ادائیگی کرنا طے پایا تھا۔ اب سامان کے پیسے بھی نہیں بچے تھے کہ وہ کل کے لئیے سامان خرید سکتا لہذا عبداللہ سٹور سے ادھار سامان لے کر آیا اور گھر والوں کو لا کر دیا کہ کل کا میٹیریل تیار کر سکے ۔ دن بدن مشکلات تھیں کہ فیصل کے گھر کا رخ کرتی ہوئی نظر آرہی تھیں ۔
 

علی وقار

محفلین
جانے کب ہوں گے کم
اس دنیا کے غم
جینے والوں پہ سدا
بے جرم و خطا
ہوتے رہے ہیں ستم
کیا جس نے گلہ، ملی اورسزا
کئی بار ہوا یہاں خون وفا
بس یہی ہے صلہ دل والوں نے دیا
یہاں دار پہ دم
جانے کب ہوں گے کم
اس دنیا کے غم
کوئی آس نہیں ،احساس نہیں
دریا بھی ملا ،بجھی پیاس نہیں
اک ہم ہی نہیں ،جسے دیکھو یہاں
وہی آنکھ ہے نم
جانے کب ہوں گے کم
اس دنیا کے غم
 
کھانا کھاتے ہوئے فیصل صبح کی منصوبہ بندی کر رہا تھا ۔ ذکیہ کے موبائیل پر محمودہ نے میٹر کی فوٹو اتار لی تھی اور اسے بھاگ کر نبیل ایزی لوڈ والے کی دکان سے پرنٹ کروا لائی تھی ۔ اس فوٹو میں یونٹس کی تعداد گیارہ سو گیارہ نظر آرہی تھی ۔ فیصل نے وہ فوٹو پرنٹ سنبھال لیا اور جا کر جلدی سے عبد اللہ کی دکان سے سامان لے آیا ۔ ہزار روپے کا ادھار کر کے سامان لاکر محمودہ کو دیا۔ آج دن بھر کی محنت کے بعد جو کمایا تھا وہ سب لگ چکا تھا بلکہ راس مال میں سے بھی کمی ہو گئی تھی ۔ بھلا ہو محمودہ کا کہ گھر میں کچھ نہ کچھ بنا کر رکھتی تھی ۔ اب مال تیاری پر لگوا کر فیصل سو گیا ۔

دوسرے دن صبح دوکان سے فارغ ہوتے ہوتے گیارہ بج گئے تھے اور آج سات تاریخ تھی ۔ بل کی آخری تاریخ ۔ فیصل نے جاوید بھائی سے سائیکل کی اور سیدھا بیگم روڈ پر لیسکو کے دفتر جا پہنچا ۔ وہاں کیا دیکھتا ہے کہ پچاس ساٹھ بندے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ سیدھا بل والے سیکشن میں گیا تو وہاں جو صاحب بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اسے لائن میں لگنے کا کہا ۔ آخر گھنٹہ ڈیڑھ بعد جب باری آئی تو ڈیوٹی کلرک نے کہا

کلرک : اوئے ویر جی ۔ یہ بل کم نہیں ہوگا بلکہ زیادہ ہو جائے گا ۔
فیصل: ہیں جی؟ جناب مجھے تو ٹیلی فون والی باجی نے کہا۔ تھا کہ تمہاری میٹر کی فوٹو میں ریڈنگ الگ ہے اور میٹر میں الگ ہے ۔
کلرک : اچھا؟ ایسے کرو انٹرنیٹ کیفے پر جاؤ اور اس سے آن لائن بل کے میٹر کی کلیئر فوٹو لے آؤ کام چل جائے گا۔
فیصل : اچھا جی سرکار ۔ یہ بات ہونے کے بعد فیصل نکل ہی رہا تھا کہ اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا۔ دیکھا تو ملنگ میٹر ریڈر تھا

ملنگ : جی میاں جی ۔ کیا حال چال ہیں؟ ادھر کدھر؟

فیصل : جناب آپ کی مہربانی ہے ۔ اور کیا ہو سکتا ہے ۔ میٹر پر ریڈنگ کم تھی بل میں زیادہ بھیج دی اب کل سے بھاگ دوڑ کر رہا ہوں ۔ دعا کریں آج کسی طرح بل ٹھیک ہو جائے ۔

ملنگ : جی جی بالکل جی ۔ بڑے نلائق ہیں یہ بجلی والے بھی۔ کہو تو میں کروا دوں ۔ آپ کے پاس تو بندہ دو کلچے کھانے بیٹھ جائے تو گھوڑا ، گھاس ، دوستی وغیرہ سنانے بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہ ہمارا ہی ظرف ہے کہ اس بدتمیزی کے بعد بھی آپ کا مسئلہ حل کروانے کے لیئے تیار ہیں
ہیں۔

فیصل: مطلب میں کم ظرف ہوں۔ بے عزتا ہوں ۔ تمہیں مفت کھلاؤں تو ٹھیک اگر پیسے مانگ لوں تو تم جگہ جگہ مجھے ذلیل کروگے؟ کیا غلط کیا تھا ۔ بھائی کھایا تھا تو پیسے دیتے کیوں تکلیف ہوئی؟

ملنگ: ناں جناب ایسا کس نے کہا؟ میں نے تو ایسے ہی بات کی تھی ۔ ویسے بھی سرکاری نوکر تو سرکار کا جوائی ہوتا ہے اسے کون پوچھتا ہے ۔ آپ تو جی عوام ہو آپ کے ٹیکسوں پر ہم پل رہے ہیں تو آپ کو سلوٹ ہے جی ۔ ابھی مجھے اجازت دیں میں نے کسی کام سے جانا ہے ۔آپ خود ہی اپنا مسئلہ دیکھیں ہم کیا ہماری اوقات کیا؟

فیصل وہاں سے نکل کر سیدھا انٹر نیٹ کیفے والے کے پاس گیا ۔ بجلی کا بل کھلوایا تو واقعی فوٹو میں ریڈنگ 1041 تھی جبکہ بل میں ریڈنگ 1091 تھی مطلب پچاس یونٹ کا فرق اور صرف اس فرق سے بل تین گنا ہو چکا تھا۔ پرنٹ نکلوا کر واپس پہنچا اور دوبارہ لائن میں لگ کر کلرک کے پاس پہنچا جس نے نئی فوٹو دیکھ کر اسے ایک لیٹر بنا کر دے دیا ۔ یہ لیٹر بھی پہلے سے پرنٹڈ بنڈل میں سے نکالا اب اس کے ساتھ بل اٹیچ کیا اور فوٹو اٹیچ کی اور اسے کہا جاؤ جا کر ایس ڈی او صاحب سے سائن کروا لو ۔

ایس ڈی او صاحب کے دفتر کے باہر اور بھی سائلین بیٹھے ہوئے تھے ۔ اپنی باری کے انتظار میں وقت تھا کہ پر لگا کر اڑ رہا تھا ۔ کوئی گھنٹے بھر کے بعد اس کی باری آئی تو ایس ڈی او نے اس کے لیٹر پر دستخط کر دیئے ۔ اور فیصل میاں وہاں سے پھر ریونیو آفس کی طرف نکل پڑے ۔ وہاں پہنچ کر متعلقہ افسر کا پتہ کیا تو جناب ایمرجنسی میں دس منٹ پہلے ہی کہیں نکل کر گئے تھے اور واپسی کا کوئی پتہ نہیں تھا ۔ دوسرے تیسرے کسی افسر کا پتہ کیا تو پتہ چلا کہ جناب محمود صاحب کے علاوہ کوئی بھی اس کام کا مجاز نہیں ہے کیونکہ ہر ایریا کا بلنگ کلرک اور ہوتا ہے ۔ بیٹھ بیٹھ کر پانچ بج گئے اور فیصل میاں پھر واپس گھر کا رخ کرتے ہیں ۔ باہر نکلے تو دھک سے رہ گئے ۔ جاوید بھائی کی سائیکل کوئی چور اچکا اٹھا کر لے جا چکا تھا اور فیصل میاں پھر پریشان ۔ ون فائیو پر فون کیا تو انہوں نے تھانہ شادمان جانے کا کہا لہذا اب تھانہ شادمان جانا تھا رکشہ کروایا اور تھانے پہنچ کر رپٹ کرائی ۔ دوسرا رکشہ کرایا اور سیدھا جاوید بھائی کے پاس جا کر ان کی چوری کا بتایا ۔ اور انہیں نئی سائیکل قسطوں پر خرید کر دینے کے بعد اپنے گھر واپس پہنچا۔ آج پھر سے کم و بیش چھے ہزار خرچ ہو گئے تھے ہزار روپیہ رکشوں پر اور پانچ ہزار سائیکل کا ایڈوانس ۔ مہینے کی قسط الگ سے تھی دو ہزار ماہانہ ایک سال تک ادائیگی کرنا طے پایا تھا۔ اب سامان کے پیسے بھی نہیں بچے تھے کہ وہ کل کے لئیے سامان خرید سکتا لہذا عبداللہ سٹور سے ادھار سامان لے کر آیا اور گھر والوں کو لا کر دیا کہ کل کا میٹیریل تیار کر سکے ۔ دن بدن مشکلات تھیں کہ فیصل کے گھر کا رخ کرتی ہوئی نظر آرہی تھیں ۔
محمودہ پریشان ہو چکی تھی ۔ ابھی دو ہی دن ہوئے ہیں اس مرن جوگے بجلی کے بل کوٹھیک کروانے کے پیچھے پڑے اور آٹھ ہزار کی پھٹیک پڑ چکی ہے ۔ چوبیس ہزار سیکل کی قسطوں اور چھے ہزار عبد اللہ سٹور والوں کے سر پر چڑھ چکے ہیں اور کام وہ ہے جو روز کا ہزار پندرہ سو کمائے ۔ بہر حال اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور فیصل سے اس معاملے میں پرسش کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ دوسرے دن فیصل صبح دکان پر کام کرتا رہا اور بارہ ایک بجے کے قریب مال ختم ہونے پر دکان سے نکلا اور سیدھا رکشہ پکڑ کر لیسکو ریونیو آفس جا پہنچا۔ وہاں جب متعلقہ ملازم کو ملا تو اس نے بل اور لیٹر اس سے لیا اور اپنے پاس موجود بنڈل میں رکھ لیا اور اسے کہا کہ بھائی صاحب آپ جائیں باہر تشریف رکھیں ۔ آپ کی باری آنے پر آپ کو آگاہ کرتا ہوں ۔ فیصل باہر جا کر بیٹھ گیا کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد آواز آئی : فیصل صاحب۔۔۔!

فیصل دوڑا ہوا گیا تو ڈیوٹی کلرک نے اسے لیٹر دکھایا کہ بھائی صاحب آپ کے لیٹر میں یہ نقص ہے کہ آپ کا صارف نمبر 1414121314 ہے جبکہ یہاں لیٹر پر 1414131314 لکھا ہوا ہے اس وجہ سے یہ لیٹر اس بل کا نہیں رہا ۔ آپ جلدی سے جائیں اور ایس ڈی او کے دفتر سے اس کی کوریکشن کروا لائیں ہم اسی وقت اس کا مسئلہ حل کر دیں گے ۔ فیصل کا پارہ بلند ہو چکا تھا اس نے چیخنا شروع کر دیا ۔غلطی آپ کے میٹر ریڈر کی اور میں پچھلے تین دن سے یہاں کتے کی طرح ذلیل ہوتا پھر رہا ہوں ۔ کبھی فلاں لیٹر لاؤ ، کبھی افسر چلا گیا، اب بھی آپ وہی ہتھکنڈے استعما کر تے جا رہے ہیں ۔ یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے ۔ میٹر ریڈر آپ کا ، فوٹو آپ کے سامنے ، لیٹر پر نمبر درست نہیں تو میرا قصور ہے؟ میں غریب آدمی ہوں تیسرا دن ہے یہاں آتے آتے اور آپ ہیں کہ جناب کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ۔ کچھ مہربانی کریں جی مجھ پر میرے بچوں پر ۔

فیصل کی بات سن کر محمود کلرک کا دل بہت پسیجا ۔ اس نے اسے بٹھایا۔ اندر سے ٹھنڈا پانی لا کر اسے پلایا اور کہنے لگا : بھائی جان میں بھی ملازم ہوں ایک چھوٹی سی بات پر نوکری سے جاؤں کیا بہتر ہے؟ میں سمجھ سکتا ہوں آپ اس وقت تکلیف میں ہیں لیکن جناب اگر میری جگہ ہو کر سوچیں تو بتائیں کہ بل کو درست کرنے کا جو لیٹر آپ لائے ہیں اس پر نمبر ہی نہیں درست تو میں کس میٹر کی ریڈنگ سسٹم میں ٹھیک کر کے آپ کو دوں ۔ اگر اس کے علاوہ کوئی کام ہو تو میرا بھائی بے فکر ہو کر مجھے بتائے میں حاضر ہوں ۔ فیصل اتنا سن کر پھر اٹھا اور باہر سے آنے جانے کا رکشہ کروا کر سیدھا ایس ڈی او آفس جان پہنچا ۔ وہاں سے لیٹر پر ہندسہ درست کروا کر واپس ریونیو آفس پہنچ کر محمود کو خط حوالے کیا تو تب تک ساڑھے چار بج چکے تھے ۔ محمود نے فورا انٹری ڈال دی اور بل کا پرنٹ نکال کر فیصل کے حوالے کیا لو بھائی جاؤ اور بل جمع کروا دو ۔ ہمارا کام ختم ہوا ۔ جیسے ہی بل دیکھا تو ایک طرف تو راحت سے فیصل کے دل کو سکون ہوا کہ آٹھ ہزار سے اوپر کا بل اب اٹھائیس سو رہ گیا تھا ۔ جبکہ میٹر ریڈنگ کا فرق ڈالنے والے نے صرف پچاس یونٹ کا فرق ڈالا تھا ۔

بل لے کر باہر نکلا اور ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ ایک رکشہ نظر آیا اور اس پر بیٹھ کر فیصل سیدھا گھر پہنچ گیا ، باہر ایزی لوڈ والے سے بل جمع کروایا اور سکون کی سانس لی ۔ آج پھر سے دنیا پر آگیا تھا۔ عبد اللہ اسٹور سے سامان خریدا اور لا کر گھر دیا اور پھر کھانا کھا کر عشاء کی نماز پڑھ کے فیصل نے سونے کا قصد کیا ۔ بچیاں پہلے ہی سو چکی تھیں ۔ وہ لیٹا ہی ہوا تھا کہ اس کے پہلو میں مانوس سی خوشبو نے اپنا آپ بتایا۔فیصل فورا سمجھ گیا کہ محمودہ ہے ۔ تھوڑا سا ایک طرف ہو کر بیگم کو جگہ دی تو اس نے لیٹ کر سرگوشی میں پوچھا:

محمودہ : جی صاحب جی کیسا رہا آج کا دن
فیصل: کجھ نہ پچھ یار محمودی اے ۔ ایس بل نے تو میری مت ہی مار دی ہے

محمودہ : چلو اخیر بل ٹھیک تو ہو گیا ناں ۔ مسئلہ تو حل ہوا
فیصل : مت پوچھو کیسا ناک سے گھسیٹیاں لے کر یہ حل ہوا ہے ، آخر کار یہ سمجھ پایا کہ سرکاری محکموں میں تو غریب آدمی کی کوئی شنوائی نہیں ہے ، ایک بل ٹھیک کروانا کرایوں اور دیگر مدوں میں ہزاروں روپے نقد لگا کر اور جگہ جگہ ذلیل ہو کر کہیں جا کر یہ بل درست ہوتا ہے ۔ اگر کوئی بزرگ اور ایسا ہو کہ جسے سفید پوشی کی وجہ سے مانگنے میں شرم آتی ہو تو اسکی زندگی تو برباد کر ہی دی ہے ناں ۔ چلو کوئی ناں ۔ اللہ پاک ہے نیں ناں ہمارا بھی وہی اللہ مالک ہے ۔
محمودہ : پتہ لگا کیا ہوا تھا ۔ کیوں اتنا بل ڈال کے بھیج دیا؟
فیصل : ،مجھے لگتا ہے کہ یہ میٹر ریڈر کی شرارت ہے ۔ کچھ دن پہلے وہ میرے پاس آیا تھا ۔ مفت کھانا کھانے کے چکر میں تھا ۔ میں نے منع کردیا تو پھر یہ بل آگیا۔
محمودہ : خود سوچیں آپ کے ذمے پورا گھر ہے ۔ ایک کتے کو تھوڑی سی ہڈی ڈال دیتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا ۔
فیصل: بات تو تم درست کہہ رہی ہو ۔ اللہ ہی ہے جو ہمارے سرکاری ملازموں کو ہدایت دے کہ اپنے معمولی فائدے کے لئے جن غریبوں کو تم اذیت یا تکلیف دیتے ہو ان کی بد دعا کہاں تک پہنچتی ہے ۔
محمودہ : صحیح کہہ رہے ہیں ۔ (اٹھتے ہوئے) چلو اب سو جاؤ سویرے کام پر بھی جانا ہے۔
فیصل : شرارت کے موڈ میں محمودہ کو ہاتھ سے پکڑ کر اٹھنے نہیں دیتا۔ اور کھینچ کر واپس جہاں تھی وہیں گرا دیتا ہے۔
محمودہ : کیا کر رہے ہیں ۔ لڑکیاں جاگ جائیں گی ۔
فیصل : لڑکیاں اپنے کمرے میں ہیں اور اب انہیں اکیلے تھوڑی رہنے دینا ہے ۔ کوئی بھائی وائی بھی تو لائیں ان کا۔
محمودہ : آپ بھی ناں ! بھائی کے چکر میں تین پریاں لے آئے ۔ آپ کا جن تو ابھی نہیں آیا
فیصل: چلو کوئی ناں ۔ شیر ۔ اک واری فیر
اور پھر کمرہ شیروں کی نورانی خوشبو سے بھرتا چلا گیا
 
Top