محمد تابش صدیقی
منتظم
سلو فل ٹاس آن دی لیگ سائڈ پلیز!
سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
تو آپ نے سن ہی لیا ہوگا کہ سٹیو سمتھ اب سال بھر کے لیے گھر بیٹھیں گے اور ڈیوڈ وارنر شاید ہمیشہ کے لیے۔ دونوں نے پشیمانی کا اظہار کیا ہے اور یہ وعدہ بھی کہ انہوں نے سبق سیکھ لیا ہے۔ لوگوں نے انہیں ٹی وی پر روتے ہوئے دیکھا ہے اس لیے دنیا میں اب ہر کھلاڑی ان کے حشر سے عبرت حاصل کرے گا۔
کرکٹ میں اب نہ بال ٹیمپرنگ ہوگی نہ میچ فکسنگ، اور سپاٹ فکسنگ کا تو ذکر بھی کرنا فضول ہے۔ یہ سب پرانی باتیں ہوگئی ہیں، کھیلوں کی دنیا میں اب ایک نئے صاف ستھرے دور کا آغاز ہوگا جہاں کھلاڑی صرف اپنے ہنر اور اپنی محنت سے جیتا کریں گے، بوتلوں کے ڈھکنوں کی مدد سے نہیں۔
بال جب بیٹ کا مہین کنارا لیکر وکٹ کیپر کے دستانوں میں جائے گی تو عہد رفتہ کی طرح بیٹس مین امپائر کے فیصلے یا فیلڈرز کی اپیل کا انتظار کیے بغیر ہی ’واک‘ کرنا شروع کردیں گے۔ فیلڈر بھاگ کر ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ بھائی بال بیٹ سے ٹچ نہیں ہوئی، آپ بیٹنگ کرتے رہیں، اور بیٹسمین جواب دیں گے کہ سٹیو سمتھ کے بال ٹیمپرنگ کیس سے پہلے تو میں شاید رک بھی جاتا لیکن اب نہیں، یہ کرکٹ کا نیا دور ہے، ہمیں نہ صرف ایمانداری سے کھیلنا چاہیے بلکہ لوگوں کو لگنا بھی چاہیے کہ ہم ایمانداری سے کھیل رہے ہیں۔ بال ٹچ نہیں ہوئی تو کیا ہوا، ہو تو سکتی تھی، آپ لوگ کھیل جاری رکھیں گے۔ اگر میں اب رک گیا تو لوگ کہیں گے کہ میں بے ایمانی سے آؤٹ ہونے کی کوشش کر رہا ہوں!
فیلڈر جان لگا دیں گے لیکن بال کو زمین پر نہیں رگڑنے دیں گے کہ کہیں ایک سائڈ کھردری نہ ہوجائے اور بال ریورس سوئنگ نہ ہونے لگے۔ کیونکہ یہ بھی ایک طرح سے بے ایمانی ہی ہے، بال اسی سمت میں سوئنگ ہونی چاہیے جدھر اس کی سلائی پوائنٹ کر رہی ہے، ورنہ بے چارے بیٹسمین کو بال کی ’لائن‘ کا اندازہ کیسے ہوگا؟
فیلڈر تھوڑی تھوڑی دیر میں بال لیکر امپائر کے پاس جایا کریں گے کہ سر اسے تبدیل کردیجیے، کہیں بیٹسمین آؤٹ نہ ہوجائے، لوگ کہیں گے کہ بالر نے کچھ گھپلا کیا ہوگا۔ اگر بیٹسمین آؤٹ ہو بھی جائے گا تو خوشی منانے کے بجائے بالر منہہ چھپاتے پھریں گے، اور گھر والے کہیں گے کہ اس کی پرورش میں ہم سے کہاں کمی رہ گئی، اب ہم سماج میں کیا منہہ دکھائیں گے؟
دراصل میرے خیال میں کرکٹ کا یہ ہی مسئلہ ہے کہ کہیں بیٹسمین آؤٹ نہ ہو جائے۔ بیٹسمین ہی بادشاہ ہے۔ تمام رولز تو مجھے اب معلوم نہیں ہیں لیکن یہ پاور پلے کیا بلا ہے بھائی؟ فیلڈر کیوں تیس گز کے دائرے میں کھڑے کیے جاتے ہیں؟ میدان کا باقی حصہ نوگو ایریا کیوں ہے؟ فاسٹ بالر ایک اوور میں کیوں دو سے زیادہ باؤنسر نہیں پھینک سکتے، لیگ سائڈ پر ہر بال وائڈ کیوں ہوتی ہے، آف سائڈ پر بس اتنی گنجائش کیوں دی جاتی ہے کہ بیٹسمین سکون سے سکوائر کٹ کرسکے؟
باؤنسر کندھے سے اوپر ہے تو نو بال ہے، پہنچ سے باہر ہے تو وائڈ بال ہے، پیر ایک انچ بالنگ کریس سے آگے نکل جائے تو فری ہٹ ہے، اور بالنگ ایکشن کا کیا؟ کہنی کتنی موڑ سکتے ہیں اور کلائی کتنی۔۔۔ جدید ترین آلات سے لیس لیبز یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ بالنگ ایکشن درست ہے یا نہیں!
اور بیٹسمین، وہ میدان میں اترتے ہیں تو لگتا ہے کہ زر بکتر پہن کر جنگ کے لیے نکلیں ہیں۔ یہ بات اور ہے کہ دشمن کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں۔ وہ جہاں چاہیں کھڑے ہوسکتے ہیں، کریس کی کوئی پابندی نہیں، آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، کہیں کی بال کہیں بھی مار سکتے ہیں، کیچ نہ ہو جائیں اس لیے فیلڈر قریب ہی رکھے جاتے ہیں، وہ ریورس سوئیپ مار سکتے ہیں، دائیں ہاتھ کا بیٹسمین بائیں ہاتھ کے بیٹسمین کی طرح کھیل سکتا ہے اور اس تمام کنفیوژن میں بال کی لائن ذرا ادھر ادھر ہو جائے تو امپائر ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوجاتے ہیں، کچھ اس انداز میں جیسے اپنے پرندوں کو ڈرانے کے لیے کھیتوں میں دیکھا ہوگا۔
اور ہاں، بال لیگ سٹمپ سے باہر پچ ہوکر اگر بیٹسمین کے پیڈز پر لگتی ہے تو اسے ایل بی ڈبلو نہیں دیا جاسکتا، چاہے تینوں ہی وکٹ کیوں نہ گر رہے ہوں! کھیلوں کے بڑے بڑے ماہرین فوراً کہیں گے: اٹ پچڈ آؤٹ سائڈ لیگ! بھائی لیگ سائڈ اتنی خراب کیوں ہے، بال کا لیگ سٹمپ سے باہر پچ کرنا اتنا بڑا گناہ کیوں ہے؟
اور بیٹسمین پر ایک اوور میں دو سے زیادہ چھکے مارنے پر پابندی کیوں نہیں ہے؟
بہر حال، ہو سکتا کہ یہ بال ٹیمپرنگ کا آخری کیس ثابت ہو، اور اچھی بات ہے کہ سخت سزائیں دے دی گئی ہیں۔ عرصہ پہلے میں نے انگلینڈ کی کاؤنٹی کرکٹ کے بارے میں ایک دلچسپ قصہ پڑھا تھا، کتنا سچ ہے مجھے معلوم نہیں لیکن یہ اس زمانے کی بات ہے جب بالر اور بیٹسمین کے درمیان برابر کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ انگلینڈ کی ہری گھاس والی وکٹ پر بال سوئنگ بھی کر رہی تھی اور باؤنس بھی۔۔۔اور بیٹسمین گھبرایا ہوا تھا، کبھی دوبارہ گارڈ لیتا، کبھی فیتا باندھتا اور کبھی پیڈز کو ایڈجسٹ کرتا۔۔۔بالر سے برداشت نہیں ہوا تو اسے نے پوچھا کہ بھائی آخر تم چاہتے کیا ہو؟
جواب ملا۔ کین آئی ہیو اے سلو فل ٹاس آن دی لیگ سائڈ پلیز! ( مجھے لیگ سائڈ پر سلو فل ٹاس مل سکتی ہے؟)
کرکٹ کی تاریخ میں انگلینڈ کے ڈاکٹر ڈبلو جی گریس کا نام سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے۔ ماہرین مانتے ہیں کہ انہوں نے ہی کرکٹ کو اس کی موجودہ شکل دی تھی۔ ان کے انتقال کو 110 سال ہو چکے ہیں۔ ان سے ایک قصہ منسوب کیا جاتا ہے کہ جب ایک نمائشی میچ کے دوران امپائر نے انہیں ایل بی ڈبلو قرار دے دیا تو گریس نے یہ کہتے ہوئے کریس چھوڑنے سے انکار کردیا کہ لوگ مجھے بیٹنگ کرتے ہوئے دیکھنے آئے ہیں، تمہیں امپائرنگ کرتے ہوئے نہیں!
بالروں کا بھی کچھ اس بے چارے امپائر جیسا ہی حال ہے،اب کھیل میں یا تو بیٹ اور بال کے درمیان توازن بحال کیا جائے یا پھر فیلڈنگ سائڈ کو میدان پر اپنی ’ٹول کٹ‘ لے جانے کی اجازت ملے!
سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
تو آپ نے سن ہی لیا ہوگا کہ سٹیو سمتھ اب سال بھر کے لیے گھر بیٹھیں گے اور ڈیوڈ وارنر شاید ہمیشہ کے لیے۔ دونوں نے پشیمانی کا اظہار کیا ہے اور یہ وعدہ بھی کہ انہوں نے سبق سیکھ لیا ہے۔ لوگوں نے انہیں ٹی وی پر روتے ہوئے دیکھا ہے اس لیے دنیا میں اب ہر کھلاڑی ان کے حشر سے عبرت حاصل کرے گا۔
کرکٹ میں اب نہ بال ٹیمپرنگ ہوگی نہ میچ فکسنگ، اور سپاٹ فکسنگ کا تو ذکر بھی کرنا فضول ہے۔ یہ سب پرانی باتیں ہوگئی ہیں، کھیلوں کی دنیا میں اب ایک نئے صاف ستھرے دور کا آغاز ہوگا جہاں کھلاڑی صرف اپنے ہنر اور اپنی محنت سے جیتا کریں گے، بوتلوں کے ڈھکنوں کی مدد سے نہیں۔
بال جب بیٹ کا مہین کنارا لیکر وکٹ کیپر کے دستانوں میں جائے گی تو عہد رفتہ کی طرح بیٹس مین امپائر کے فیصلے یا فیلڈرز کی اپیل کا انتظار کیے بغیر ہی ’واک‘ کرنا شروع کردیں گے۔ فیلڈر بھاگ کر ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ بھائی بال بیٹ سے ٹچ نہیں ہوئی، آپ بیٹنگ کرتے رہیں، اور بیٹسمین جواب دیں گے کہ سٹیو سمتھ کے بال ٹیمپرنگ کیس سے پہلے تو میں شاید رک بھی جاتا لیکن اب نہیں، یہ کرکٹ کا نیا دور ہے، ہمیں نہ صرف ایمانداری سے کھیلنا چاہیے بلکہ لوگوں کو لگنا بھی چاہیے کہ ہم ایمانداری سے کھیل رہے ہیں۔ بال ٹچ نہیں ہوئی تو کیا ہوا، ہو تو سکتی تھی، آپ لوگ کھیل جاری رکھیں گے۔ اگر میں اب رک گیا تو لوگ کہیں گے کہ میں بے ایمانی سے آؤٹ ہونے کی کوشش کر رہا ہوں!
فیلڈر جان لگا دیں گے لیکن بال کو زمین پر نہیں رگڑنے دیں گے کہ کہیں ایک سائڈ کھردری نہ ہوجائے اور بال ریورس سوئنگ نہ ہونے لگے۔ کیونکہ یہ بھی ایک طرح سے بے ایمانی ہی ہے، بال اسی سمت میں سوئنگ ہونی چاہیے جدھر اس کی سلائی پوائنٹ کر رہی ہے، ورنہ بے چارے بیٹسمین کو بال کی ’لائن‘ کا اندازہ کیسے ہوگا؟
فیلڈر تھوڑی تھوڑی دیر میں بال لیکر امپائر کے پاس جایا کریں گے کہ سر اسے تبدیل کردیجیے، کہیں بیٹسمین آؤٹ نہ ہوجائے، لوگ کہیں گے کہ بالر نے کچھ گھپلا کیا ہوگا۔ اگر بیٹسمین آؤٹ ہو بھی جائے گا تو خوشی منانے کے بجائے بالر منہہ چھپاتے پھریں گے، اور گھر والے کہیں گے کہ اس کی پرورش میں ہم سے کہاں کمی رہ گئی، اب ہم سماج میں کیا منہہ دکھائیں گے؟
دراصل میرے خیال میں کرکٹ کا یہ ہی مسئلہ ہے کہ کہیں بیٹسمین آؤٹ نہ ہو جائے۔ بیٹسمین ہی بادشاہ ہے۔ تمام رولز تو مجھے اب معلوم نہیں ہیں لیکن یہ پاور پلے کیا بلا ہے بھائی؟ فیلڈر کیوں تیس گز کے دائرے میں کھڑے کیے جاتے ہیں؟ میدان کا باقی حصہ نوگو ایریا کیوں ہے؟ فاسٹ بالر ایک اوور میں کیوں دو سے زیادہ باؤنسر نہیں پھینک سکتے، لیگ سائڈ پر ہر بال وائڈ کیوں ہوتی ہے، آف سائڈ پر بس اتنی گنجائش کیوں دی جاتی ہے کہ بیٹسمین سکون سے سکوائر کٹ کرسکے؟
باؤنسر کندھے سے اوپر ہے تو نو بال ہے، پہنچ سے باہر ہے تو وائڈ بال ہے، پیر ایک انچ بالنگ کریس سے آگے نکل جائے تو فری ہٹ ہے، اور بالنگ ایکشن کا کیا؟ کہنی کتنی موڑ سکتے ہیں اور کلائی کتنی۔۔۔ جدید ترین آلات سے لیس لیبز یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ بالنگ ایکشن درست ہے یا نہیں!
اور بیٹسمین، وہ میدان میں اترتے ہیں تو لگتا ہے کہ زر بکتر پہن کر جنگ کے لیے نکلیں ہیں۔ یہ بات اور ہے کہ دشمن کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں۔ وہ جہاں چاہیں کھڑے ہوسکتے ہیں، کریس کی کوئی پابندی نہیں، آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، کہیں کی بال کہیں بھی مار سکتے ہیں، کیچ نہ ہو جائیں اس لیے فیلڈر قریب ہی رکھے جاتے ہیں، وہ ریورس سوئیپ مار سکتے ہیں، دائیں ہاتھ کا بیٹسمین بائیں ہاتھ کے بیٹسمین کی طرح کھیل سکتا ہے اور اس تمام کنفیوژن میں بال کی لائن ذرا ادھر ادھر ہو جائے تو امپائر ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوجاتے ہیں، کچھ اس انداز میں جیسے اپنے پرندوں کو ڈرانے کے لیے کھیتوں میں دیکھا ہوگا۔
اور ہاں، بال لیگ سٹمپ سے باہر پچ ہوکر اگر بیٹسمین کے پیڈز پر لگتی ہے تو اسے ایل بی ڈبلو نہیں دیا جاسکتا، چاہے تینوں ہی وکٹ کیوں نہ گر رہے ہوں! کھیلوں کے بڑے بڑے ماہرین فوراً کہیں گے: اٹ پچڈ آؤٹ سائڈ لیگ! بھائی لیگ سائڈ اتنی خراب کیوں ہے، بال کا لیگ سٹمپ سے باہر پچ کرنا اتنا بڑا گناہ کیوں ہے؟
اور بیٹسمین پر ایک اوور میں دو سے زیادہ چھکے مارنے پر پابندی کیوں نہیں ہے؟
بہر حال، ہو سکتا کہ یہ بال ٹیمپرنگ کا آخری کیس ثابت ہو، اور اچھی بات ہے کہ سخت سزائیں دے دی گئی ہیں۔ عرصہ پہلے میں نے انگلینڈ کی کاؤنٹی کرکٹ کے بارے میں ایک دلچسپ قصہ پڑھا تھا، کتنا سچ ہے مجھے معلوم نہیں لیکن یہ اس زمانے کی بات ہے جب بالر اور بیٹسمین کے درمیان برابر کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ انگلینڈ کی ہری گھاس والی وکٹ پر بال سوئنگ بھی کر رہی تھی اور باؤنس بھی۔۔۔اور بیٹسمین گھبرایا ہوا تھا، کبھی دوبارہ گارڈ لیتا، کبھی فیتا باندھتا اور کبھی پیڈز کو ایڈجسٹ کرتا۔۔۔بالر سے برداشت نہیں ہوا تو اسے نے پوچھا کہ بھائی آخر تم چاہتے کیا ہو؟
جواب ملا۔ کین آئی ہیو اے سلو فل ٹاس آن دی لیگ سائڈ پلیز! ( مجھے لیگ سائڈ پر سلو فل ٹاس مل سکتی ہے؟)
کرکٹ کی تاریخ میں انگلینڈ کے ڈاکٹر ڈبلو جی گریس کا نام سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے۔ ماہرین مانتے ہیں کہ انہوں نے ہی کرکٹ کو اس کی موجودہ شکل دی تھی۔ ان کے انتقال کو 110 سال ہو چکے ہیں۔ ان سے ایک قصہ منسوب کیا جاتا ہے کہ جب ایک نمائشی میچ کے دوران امپائر نے انہیں ایل بی ڈبلو قرار دے دیا تو گریس نے یہ کہتے ہوئے کریس چھوڑنے سے انکار کردیا کہ لوگ مجھے بیٹنگ کرتے ہوئے دیکھنے آئے ہیں، تمہیں امپائرنگ کرتے ہوئے نہیں!
بالروں کا بھی کچھ اس بے چارے امپائر جیسا ہی حال ہے،اب کھیل میں یا تو بیٹ اور بال کے درمیان توازن بحال کیا جائے یا پھر فیلڈنگ سائڈ کو میدان پر اپنی ’ٹول کٹ‘ لے جانے کی اجازت ملے!