فرحان محمد خان
محفلین
سلیمؔ کس کو بتاؤں ابھی سے کیا ہوں میں
ابھی تو کارِ تمنا کی ابتدا ہوں میں
تری کشش سے ترے گرد رقصِ شوق میں ہوں
جو قُرب سے نہیں گھٹا وہ فاصلہ ہوں میں
مری شکست سے تو بھی بکھر نہ جائے کہیں
مجھے سنبھال کے رکھ تیرا آئینہ ہوں میں
نشاط و درد کے ہر حال میں ہوا محسوس
کہ جیسے دور کھڑا خود کو دیکھتا ہوں میں
تو یاد ہے ترا کوئی حوالہ یاد نہیں
وفا جفا کے وہ قصے بھلا چکا ہوں میں
ابھی تو کارِ تمنا کی ابتدا ہوں میں
تری کشش سے ترے گرد رقصِ شوق میں ہوں
جو قُرب سے نہیں گھٹا وہ فاصلہ ہوں میں
مری شکست سے تو بھی بکھر نہ جائے کہیں
مجھے سنبھال کے رکھ تیرا آئینہ ہوں میں
نشاط و درد کے ہر حال میں ہوا محسوس
کہ جیسے دور کھڑا خود کو دیکھتا ہوں میں
تو یاد ہے ترا کوئی حوالہ یاد نہیں
وفا جفا کے وہ قصے بھلا چکا ہوں میں
سلیم احمد