طارق شاہ
محفلین
غزلِ
سلیم احمد
دِل کے اندر درد، آنکھوں میں نمی بن جائیے
اِس طرح مِلیے، کہ جُزوِ زندگی بن جائیے
اِک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا !
روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے
جس طرح دریا بُجھا سکتے نہیں صحرا کی پیاس
اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے
دیوتا بننےکی حسرت میں مُعلّق ہوگئے
اب ذرا نیچے اُتریے، آدمی بن جائیے
جس طرح خالی انگوٹھی کو نگینہ چاہیے
عالمِ اِمکاں میں اِک ایسی کمی بن جائیے
عقلِ کُل بن کر تو، دُنیا کی حقیقت دیکھ لی
دل یہ کہتا ہے کہ اب دیوانگی بن جائیے
وُسعتوں میں لوگ کھو دیتے ہیں خود اپنا شعُور
اپنی حد میں آئیے اور آگہی بن جائیے
حُسنِ معنی کیوں رہے حرف و صدا کی قید میں
ماورائے گوش و لب، اِک ان کہی بن جائیے
عالمِ کثرت نہاں ہے اُس اکائی میں سلیم
خود میں خود کو جمع کیجے اورکئی بن جائیے
سلیم احمد - گجرات، پاکستان
" چراغ نیم شب "
سلیم احمد
دِل کے اندر درد، آنکھوں میں نمی بن جائیے
اِس طرح مِلیے، کہ جُزوِ زندگی بن جائیے
اِک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا !
روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے
جس طرح دریا بُجھا سکتے نہیں صحرا کی پیاس
اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے
دیوتا بننےکی حسرت میں مُعلّق ہوگئے
اب ذرا نیچے اُتریے، آدمی بن جائیے
جس طرح خالی انگوٹھی کو نگینہ چاہیے
عالمِ اِمکاں میں اِک ایسی کمی بن جائیے
عقلِ کُل بن کر تو، دُنیا کی حقیقت دیکھ لی
دل یہ کہتا ہے کہ اب دیوانگی بن جائیے
وُسعتوں میں لوگ کھو دیتے ہیں خود اپنا شعُور
اپنی حد میں آئیے اور آگہی بن جائیے
حُسنِ معنی کیوں رہے حرف و صدا کی قید میں
ماورائے گوش و لب، اِک ان کہی بن جائیے
عالمِ کثرت نہاں ہے اُس اکائی میں سلیم
خود میں خود کو جمع کیجے اورکئی بن جائیے
سلیم احمد - گجرات، پاکستان
" چراغ نیم شب "
آخری تدوین: